شاعرِ مشرق، حکیم الامت حضرت علامہ اقبال کے اشعار کی تفسیر و تشریح میں اکثر ہم لوگ غلطی کر جاتے ہیں۔ اگر بات علمی مباحث تک ہو تو بھی ٹھیک ہے، مگر جب ان غلط تشریحات کا اطلاق عملی زندگی میں ہونے لگے تو ہمارے لیے پریشانیاں پیدا ہوجاتی ہیں۔
کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ ہم کسی شعر کا مطلب تو صحیح نکالتے ہیں لیکن اس کے انطباق میں غلطی کر بیٹھتے ہیں۔ مثلاً اس شعر ہی کو لیجیے؎
نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر
تُو شاہیں ہے بسیراکر پہاڑوں کی چٹانوں میں
اب جسے دیکھو علامہ اقبال کے اس شعر کو راہ نما بنا کر منہ اٹھائے پہاڑوں کی طرف چل دیتا ہے۔ حالاں کہ پہاڑوں کی طرف رختِ سفر باندھنے سے پہلے یہ جان لینا چاہیے کہ شاعرِ مشرق نے کن پہاڑوں میں سکونت اختیار کرنے کی ”ہدایت“ کی ہے۔ ہمارے خیال میں علامہ کا اشارہ تورا بورا کے کوہ ساروں کی طرف تھا اور ان کی دور رس نگاہوں نے دیکھ لیا تھا کہ ”عقابی حرکتیں“ کرنے والوں کے لیے یہ پہاڑ ہی محفوظ پناہ گاہ بن سکتے ہیں۔ رہے بلوچستان وغیرہ کے پہاڑ تو بھیا! ان ”پہاڑوں“ کا کوئی بھروسا نہیں۔ آپ ان میں جاکے بیٹھیں تو یہ آپ پر بیٹھ جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ علامہ نے اپنے شعر میں واضح طور پر تورا بورا کا ذکر کیوں نہیں کیا؟ ہمارے خیال میں انھوں نے افغانستان کی مناسبت سے ”پٹھانوں کی چٹانوں میں“ لکھا ہوگا، جو ”پٹھانوں“ سے بگڑ کر ”پہاڑوں“ ہوگیا۔ اور پھر اسے ”پہاڑوں“ ہی تسلیم کرلیا گیا کیوں کہ پٹھان بگڑ جائے تو ”بڑے بڑوں“ کو اسے ”پہاڑ“ تسلیم کرنا پڑتا ہے۔
ہم یہاں کلام اقبال کے حوالے سے کچھ اور غلط فہمیوں کی نشان دہی بھی کیے دیتے ہیں۔
کافر ہو تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسا
مومن ہو تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
شمشیر بہ دست کافر سے بے تیغ مومن کا رانوں پر ہاتھ مار کر ”کبڈی کبڈی“ کہتے ہوئے بِِھڑ جانا، نری خود کشی ہوگی اور بھلا اقبال مسلمانوں کو خودکشی کا مشورہ کیوں دینے لگے؟ ان کے کہنے کا مطلب صرف اتنا ہے کہ غنیم کو شکست دینے کے لیے تلوار پر بھروسا کرنا تو کافروں کا وتیرہ ہے۔ ”مومن سپاہی“ تو بس قلم اٹھاتا ہے اور کاغذ پر دشمن کے کشتوں کے پشتے لگاتا چلا جاتا ہے۔ اور جب کم از کم ڈیڑھ دو سیر کاغذ دشمن کے خون میں نہا کر سفید سے سرخ اور سرخ سے سیاہ ہوجاتا ہے تو مومن سپاہی اسے ”خود نوشت“ کی صورت میں شایع کر دیتا ہے۔
اے طائرِ لاہوتی، اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
اس شعر کے مصرعِ ثانی کو صدر ایوب خان نے اپنی ”مبینہ خود نوشت“ کے اردو ترجمے کا عنوان بنایا تھا۔ اس عنوان نے کتاب کی فروخت پر بڑا بُرا اثر ڈالا۔ اکثر لوگوں نے اس کتاب کے سرورق پر نظر پڑتے ہی سمجھا کہ یہ وہ ”رزق“ ہے جو پرواز میں کوتاہی لاتا ہے اور پھر ”اس رزق سے موت اچھی“ کہہ کر کتاب خریدنے کا ارادہ ترک کردیا۔ نتیجتاً بنیادی جمہوریت، ون یونٹ اور کنوینشنل لیگ کی طرح ایوب خان کی کتاب بھی رزق خاک ہوئی۔
ہمارے خیال میں امریکی امداد، بھارتی اجناس اور عالمی مالیاتی اداروں کے قرضوں کے معاملے میں اس شعر کو حوالہ بنانا مصلحت اور عقل کے تقاضوں کے مطابق نہیں ہوگا۔ لہٰذا اسے علامہ کا پرندوں کو مشورہ سمجھ لینے ہی میں عافیت ہے۔
مرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
خودی نہ بیچ، غریبی میں نام پیدا کر
غریبوں نے اپنے ممدوح کا یہ شعر پڑھ کر نام پیدا کرنے کی ٹھان لی۔ اب نام ور ہونے کے لیے ضروری ہے کہ؎ پُل بنا، چاہ بنا، مسجد و تالاب بنا۔ اور بے چارے غریب تو اپنے کپڑے بنانے کی سکت بھی نہیں رکھتے۔ چناں چہ انھوں نے نام وری کے لیے نورِ نظر اور لختِ جگر کی پیداوار دھڑادھڑ شروع کر دی اور ہر بچے کے نام سے اپنا نام جوڑ کر سمجھے کہ نام پیدا کرلیا۔ ہمارے محلّے دار ’ببّن میاں‘ نے کثرت اولاد کی خواہش کو ”یقین محکم“ بنا اور ”محبت فاتحِ بیگم“ کا نعرہ لگا کر جو ”عمل پیہم“ شروع کیا تو ان کے گھر میں بچوں کی بھیڑ لگ گئی۔ موصوف، شبو ببن، نبو ببن، کلو ببن سمیت ایک درجن پسران و دختران کی ولدیت کا اعزاز رکھنے کی وجہ سے اس خیال میں غلطاں ہیں کہ انھوں نے دنیا میں ”ببّنوں“ کی تعداد بڑھا کر اپنا نام زندہ جاوید کر لیا ہے۔
ببن میاں جیسے حالات اور خیالات کے حامل خواتین و حضرات کو ہمارا مشورہ ہے کہ نام پیدا کرنے کے چکر میں نہ پڑیں اور خودی بیچ کر گھر چلائیں، کیوں کہ ہم جس سرمایہ داری نظام میں زندہ ہیں اس میں افراد واقوام خودی کا سودا کیے بغیر نام نہیں صرف مسائل پیدا کرسکتے ہیں۔
گیا دورِ سرمایہ داری گیا
تماشا دکھا کر مداری گیا
علامہ کو غلط فہمی ہوئی تھی۔ ”مداری“ بس کچھ دور گیا تھا اور اشتراکیت سے کہہ گیا تھا ”بی بی! تم اپنا پتلی تماشا دکھاؤ، میں ابھی آتا ہوں۔“ اشتراکی پتلی باز کا تماشا ابھی جاری ہی تھا کہ مداری اپنے سرکس کے ساتھ واپس آگیا۔ اب کے اس کا تماشا ایسا دل چسپ تھا کہ تماش بیں مبہوت ہوکر دیکھا کیے۔ مداری نے بندر کے بہ جائے سفید ریچھ اور کاغذی شیروں کو نچایا۔ مجاہدین سے موت کے گولے اور موت کے کنوئیں میں موٹر سائیکل چلوائی اور جوکروں سے خود ان کی بَھد اڑوائی۔ اتنے بڑے اور ایسے دل چسپ سرکس کے سامنے بے چارے پتلی باز کی کیا چلتی۔ چار و ناچار وہ خود بھی سرکس میں ملازم ہوگیا۔ ایسے میں کٹھ پتلیاں بے آسرا ہوگئیں، اب ان کی حالت یہ ہے کہ جو بھی ڈور پکڑ لے اس کی انگلیوں پر ناچنے لگتی ہیں۔
خیر علامہ اقبال کو تو کچھ آثار دیکھ کر سرمایہ داری کے رخصت ہوجانے کی غلط فہمی ہوئی تھی۔ بہتر یہی ہے کہ دور حاضر میں کوئی، علامہ اقبال کی غلط فہمی کو جواز بنا کر، ”گیا دور سرمایہ داری گیا“ کا راگ نہ الاپے اور اگر الاپے تو ہم سے یہ شکایت نہ کرے کہ………..مجھ کو دیوانہ سمجھتے ہیں ترے شہر کے لوگ۔
ترے سوفے ہیں افرنگی، ترے قالیں ہیں ایرانی
لہو مجھ کو رلاتی ہے جوانوں کی تن آسانی
عہدِ حاضر کے جوانوں کو اس شعر سے نصیحت پکڑنے کی کوئی ضرورت نہیں، کیوں کہ، ایک تو اس شعر میں سوفوں اور قالینوں کا ذکر کیا گیا ہے، اور مقامی طور پر تیار کردہ یہ اشیاء افرنگی و ایرانی سوفوں اور قالینوں کی ٹکر کی ہیں۔ اس شعر میں ”میڈ ان چائنا“ اشیاء، امریکی مصنوعات، جاپانی و جرمن گاڑیوں، سوئس گھڑیوں، فرانسیسی خوشبوعات اور بھارتی پیاز وغیرہ کا کوئی ذکر نہیں۔ لہٰذا یہ اشیا بلاتکلف اور علامہ اقبال کے لہو رونے کے خدشے سے بے نیاز ہوکر خریدی جاسکتی ہیں۔
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو
یہ شعر آپ کو حکم رانوں کی تقاریر، علما کے وعظ و خطبوں اور سرکاری و نجی عمارات کی دیواروں پر آویزاں کلامِ اقبال میں ڈھونڈے سے بھی نہیں ملے گا۔ پس، سمجھ لینا چاہیے کہ یہ ”حکم“ منسوخ ہو چکا ہے۔ ویسے بھی اس شعر کی پیروی کرنے والا دہقان خود بھوکا مر جائے گا۔ کیوں کہ اسے روزی سے محروم رکھنے والے ”چوہدری صاحب“ کے گودام میں گندم کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔ خوشہ ہائے گندم جل گئے تو وہ اس نقصان کے نام پر حکومت سے سہولتیں اور بینک سے قرضہ لے کر اپنے دھن میں اضافہ کریں گے اور کھیت بیچ کر کارخانہ لگا لیں گے۔ رہی جلی ہوئی گندم تو وہ حکومت کے توسط سے کسی بھی ملک برآمد کردی جائے گی۔ گندم کے جلنے سے اس کی پیداوار کو جو نقصان ہوگا وہ امریکا سے ایف 16 طیاروں کے منسوخ شدہ سودے کے عوض گندم لے کر پورا کر لیا جائے گا۔ سو میاں دہقان! جس کھیت سے تم کو میسر نہ ہو روزی اس کھیت کو اپنا لہو پلاتے رہو۔
کھول آنکھ، زمیں دیکھ، فلک دیکھ، فضا دیکھ
مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ
یہ شعر نائٹ شفٹ کے اخبار نویسوں، رات گئے تک کام کرنے والوں اور دن چڑھے سو کر اٹھنے والے ہم جیسے ”کس قدر تم پہ گراں صبح کی بیداری ہے“ کے مصداق خواتین و حضرات کے لیے نہیں۔ علاوہ ازیں فلیٹوں کے مکین، باوجود کوشش اس شعر کی پیروی سے قاصر رہیں گے۔ زمین، فلک اور فضا کے نام پر وہ فرش، چھت اور کھڑکی کے باہر پھیلا دھواں دیکھ کر صرف ”حجتِ شرعی“ پوری کر پائیں گے۔ رہا ابھرتے سورج کا نظارہ تو اس مقصد کے لیے فرائی انڈے کا دیدار کیا جاسکتا ہے۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ اس شعر کے ذریعے حضرت علامہ نے مسلمانوں کو تڑکے تڑکے، پو پھٹنے سے پہلے اٹھنے کی تلقین کی ہے۔ اور کچھ حضرات کا خیال ہے کہ اس شعر میں جہاں بینی و سیر بینی کی تاکید کی جارہی ہے۔ لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ علامہ کہہ رہے ہیں،
”ارے بے وقوف! اتنے سویرے کیوں اٹھ گیا۔ خوابیدہ نظروں سے گھڑی کیا تک رہا ہے۔ اب اگر اٹھ ہی گیا ہے تو؎ کھول آنکھ زمیں دیکھ فلک دیکھ فضا دیکھ…. کہیں کوئی کام کرتا نظر آرہا ہے۔ ابھی تو سورج ابھر ہی رہا ہے اور تجھے اٹھنے کی پڑگئی۔ چَل! منہ ڈھک کے سوجا۔“
(ادیب، شاعر اور معروف طنز و مزاح نگار محمد عثمان جامعی کی کتاب "کہے بغیر” سے ایک شگفتہ پارہ)