ہفتہ, نومبر 16, 2024
اشتہار

تمنّا عمادی: علم کا بحرِ بے پایاں

اشتہار

حیرت انگیز

برصغیر کی بلند پایہ، نہایت قابل علمی و ادبی شخصیات میں علامہ تمنا عمادی کا نام بھی شامل ہے جو ایک محدث، مفسر، مبلغ اور محقق ہی نہیں عمدہ شاعر اور کئی کتب کے مصنف بھی تھے۔ تمنا عمادی ان شخصیات میں سے ایک ہیں جو زندگی میں بھی گمنامی کو اپنے لیے عافیت سمجھتے رہے اور علمی مشاغل میں خود کو غرق کیے رکھا۔ سو، یہ بات تعجب خیز نہیں کہ آج انھیں فراموش کیا جاچکا ہے۔

علامہ تمنا عمادی علم و فن میں بے مثال تھے۔ عربی، فارسی اور اردو پر عبور اور ان زبانوں میں تحریر و بیان پر زبردست قدرت رکھتے تھے۔ عروض کے ماہر تھے اور ایک عالم اور دینی شخصیت ہی نہیں بلکہ عمدہ شاعر، مترجم اور سوانح نگار بھی تھے۔ علامہ 27 نومبر 1972ء کو کراچی میں وفات پاگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔

انھوں نے کئی تصانیف یادگار چھوڑیں جن میں مثنوی مذہب و عقل، مثنوی معاش و معاد، ایضاحِ سخن، افعالِ مرکبہ، تمنائے سخن، اعجاز القرآن اور کئی مضامین شامل ہیں۔ مالک رام نے اپنی مشہور کتاب تذکرہ معاصرین میں لکھا ہے کہ ان کا اردو اور فارسی کا کلام اتنا تھا کہ ضخیم کلیات شایع ہوتا، مگر افسوس کہ وہ دست یاب نہیں لیکن یہ سبھی تسلیم کرتے ہیں کہ زبان پر قدرت، محاورے اور روزمرہ میں استادانہ نگاہ رکھتے تھے۔

- Advertisement -

ان کا اصل نام سید حیات الحق محمد محی الدین تھا۔ علامہ نے 14 جون 1888 کو پھلواری شریف، ضلع پٹنہ میں ایک دینی، علمی اور ادبی گھرانے میں آنکھ کھولی۔ درس نظامی کی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی۔ حدیث شریف اور طب کا بھی مطالعہ کیا۔ شمشاد لکھنوی سے تلمذ حاصل تھا۔ فارسی شاعری اور عربی ادب میں علامہ شبلی سے استفادہ کیا۔ جب سید عبدالعزیز بیرسٹر، پٹنہ حیدرآباد دکن گئے اور وزارتِ امورِ مذہبی وعدلیہ پر مامور کیے گئے تو تمنّا عمادی بھی حیدرآباد تشریف لے گئے اور عرصے تک ان کے ساتھ اقامت پذیر رہے۔ تمنا عمادی 1948ء میں ڈھاکہ ہجرت کرگئے۔ کافی عرصہ ڈھاکہ ریڈیو سے قرآن شریف کا درس دیتے رہے۔ علامہ کی علمی زندگی اور ان کا مذہبی نقطہ نظر متنازع بھی رہا۔ وہ غور و فکر کے عادی رہے اور ان کی زندگی میں بڑے فکری انقلابات آئے۔ ڈھاکا سے نقل مکانی کر کے چاٹگام اور پھر آنکھ کے آپریشن کے سلسلے میں کراچی آگئے اور یہیں وفات پائی۔ علامہ تمنا عمادی کا علم بحرِ بے پایاں تھا۔ ان کامطالعہ بہت وسیع تھا۔ یہ بڑے پُر گو اور مشاق شاعر تھے۔

علامہ تمنا عمادی کے ادبی، لسانی اور علم و دانش کے معترف نیاز فتح پوری، جوش ملیح آبادی، ڈاکٹر عندلیب شادمانی اور ماہر القادری کے علاوہ بہت سے جید ادباء اور شعراء تھے۔

اکثر تذکروں میں ان کا نام تمنّا عمادی مجیبی پھلواروی بھی لکھا گیا ہے۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں