منگل, مارچ 4, 2025
اشتہار

بد قسمت(غیرملکی ادب سے منتخب افسانہ)

اشتہار

حیرت انگیز

وہ جتنی حسین تھی اتنی ہی بدقسمت بھی۔ کم از کم اپنی نظروں میں۔ اس کا شوہر اچھے عہدے پر فائز تھا۔ وہ ایک بیٹے اور دو بیٹیوں کی ماں تھی۔ بظاہر کسی چیز کی کمی نہ تھی۔ لیکن اسے ہمیشہ اپنی کم مائیگی کا احساس رہتا۔ یہی سوچتی کہ اگر تھوڑا سا پیسہ اور آ جائے تو زندگی بن جائے۔ اس کے سر پر بس یہی ایک دھن سوار ہتی۔ ”پیسہ کہاں سے آئے۔ پیسہ کہاں سے آئے۔“

”امی ہمارے پاس کار کیوں نہیں ہے۔ ہم ہمیشہ انکل آسکر سے لفٹ کیوں مانگتے ہیں۔“ ایک دن پال، اس کے سات سال کے بیٹے نے ماں سے سوال کیا۔

”اس لئے بیٹا کہ ہمارے پاس جتنا ہونا چاہیے اتنا پیسہ نہیں ہے۔“

”وہ کیوں؟ “

”اس لئے کہ ہم بد قسمت ہیں۔“

”لیکن امی میں توخوش قسمت ہوں۔“

ماں نے پیار اور تجسس بھری نظروں سے پال کو دیکھا اور پوچھا کہ اسے کیسے معلوم ہے کہ وہ خوش قسمت ہے۔

”اس لئے کہ مجھے خدا نے خود بتایا ہے“

”ضرور بتایا ہوگا بیٹا“

ماں نے مصنوعی مسکراہٹ سے جوا ب دیا۔ اس مسکراہٹ میں ایک تلخی شامل تھی۔ بیٹے کو احساس ہو گیا تھا کہ ماں نے اس کا دل رکھنے کو اس کی بات سے اتفاق کیا ہے۔ جس پر اسے دکھ بھی ہوا اورغصہ بھی آیا۔ وہ مزید بات کیے نرسری میں چلا گیا جہاں اس کی چھوٹی جڑواں بہنیں گڑیوں سے کھیل رہی تھیں۔

نرسری میں اس کا پسندیدہ کھلونا رکھا تھا۔ یہ کھلونا لکڑی کا ایک گھوڑا تھا اتنا بڑا کہ بچے اس پر سواری کر سکیں۔ سموں کے نیچے کمان دار لکڑی لگی ہوئی تھی جس سے تیز تیز جھولے آتے۔ پال غصے میں گھوڑے پر بیٹھ کر زور زور سے جھولے لینے لگا۔

ماں کی باتیں سن سن کر پال اس فکر میں رہتا کہ وہ اپنی ماں کی قسمت کو کیسے بدل سکتا ہے۔ اکثر سوچتے سوچتے اس کی آنکھوں میں ایک عجیب سا جنوں جھلکنے لگتا۔ وہ کاٹھ کے گھوڑے سے پر اسرار آواز میں مخاطب ہو کر اس سے کہتا۔

”مجھے وہاں لے چل جہاں اچھی قسمت ملتی ہے۔ “

ایک دن وہ اسی جنونی کیفیت میں گھوڑے کو دڑکی لگوا رہا تھا کہ اس کی ماں اور ماموں، انکل آسکر، کمرے میں داخل ہوئے۔

”پال اب تم اس کھیل کے گھوڑے کے لئے کچھ بڑے نہیں ہو گئے؟ “ انکل آسکر نے پوچھا۔
پال نے کوئی جواب نہیں دیا۔

”تمہارے اس گھوڑے کا نام کیا ہے؟ “

”اس کے نام بدلتے رہتے ہیں۔ کل اس کا نام گڈ لک تھا۔ اور اس سے پہلے ہفتے میں گولڈن ایرو۔“

”یہ تو اسکاٹ ریس کورس میں دوڑنے والے گھوڑوں کے نام ہیں۔ تمھیں یہ نام کیسے معلوم ہوئے؟“

”مجھے مالی نے یہ نام بتائے ہیں۔“ پال نے جواب دیا

مالی کو انکل آسکر نے پال کے والدین کے پاس ملازم رکھوایا تھا۔ مالی ریسز کا شیدائی تھا۔ اسے اکثر گھوڑوں کے شجرے زبانی یاد ہوتے تھے۔ پال کی ماں اور انکل آسکر کو فکر ہوئی کہ کہیں مالی بچے کو بگاڑ تو نہیں رہا۔ وہ مالی کے پاس گئے اور اس سے پوچھا کہ وہ پال سے کیا گفتگو کرتا ہے۔

مالی نے بتایا کہ پال فارغ وقت میں گھنٹوں اس کے پاس بیٹھ کر گھوڑوں کے بارے میں باتیں کرتا ہے۔ انکل آسکر نے پوچھا کہ کہیں پال اپنا جیب خرچ گھوڑوں پر تو نہیں لگاتا۔ لیکن مالی نے کہا کہ سرکار میں گستاخی نہیں کر سکتا مگر یہ بات اگر آپ ماسٹر پال سے خود ہی پوچھیں تو بہتر ہے۔

اگلے دن انکل آسکر نے پال کو اپنی نئی گاڑی میں بٹھایا اور لمبی ڈرائیو کے لئے لے گئے۔ انکل آسکر نے پوچھا کہ اس نے کبھی گھوڑوں پر شرط لگائی ہے؟ جب پال نے جواب دینے میں کچھ تامل کیا تو انکل آسکر نے کہا کہ وہ خود ریسز کے شوقین ہیں اور دراصل پال سے پوچھنا چاہتے تھے کہ اگلے ہفتے اسکاٹ کی ریس میں کس گھوڑے کے جیتنے کی امید ہے۔ کچھ دیر کی خاموشی کے بعد پال نے بتایا کہ وہ اور مالی پارٹنر شپ میں شرطیں لگاتے ہیں اور اس کے خیال میں اگلی ریس میں ڈیفوڈل کی جیت یقینی ہے۔

”ہم کافی عرصے سے پارٹنرز ہیں۔ میں اپنا جیب خرچ مالی کو دے دیتا ہوں اور وہ میری طرف سے شرط لگاتا ہے۔“

پال کبھی ریس کورس نہیں گیا تھا۔ انکل آسکر نے پال کو اگلی ریس میں ساتھ لے جانے کا وعدہ کیا جس میں ڈیفوڈل دوڑ رہا تھا۔ انکل آسکر نے پال کے اصرار پر پانچ پاؤنڈ ڈیفوڈل پر اور بیس دوسرے گھوڑوں پر لگائے۔ پال نے تین سو ڈیفوڈل پر لگا دیے۔ خلافِ توقع ڈیفوڈل جیت گیا۔

”تم ان تین ہزار پاوْنڈ کا کیا کرو گے؟ “ انکل آسکر نے پوچھا۔

”میں سب پیسے مالی کے پاس جمع کرا دیتا ہوں۔ یہ ملا کر اب اس کے پاس پانچ ہزار پاونڈ ہو جائیں گے۔ “

اگلے ہفتے انکل آسکر نے پال اور مالی سے دوبارہ اس بات پر گفتگو کی اور پال سے پوچھا کہ اسے کیسے پتہ چل جاتا ہے کہ کون سا گھوڑا جیتے گا۔

پال کی بجائے مالی نے جواب دیا۔ ”سر یوں لگتا ہے جیسے ماسٹر پال کوکسی غیبی طاقت کی طرف سے اشارے ہوتے ہیں۔ “

اب انکل آسکر نے بھی اس پارٹنر شپ میں شرکت کر لی تھی۔ اس کے بعد اگلی ریس میں پال نے ہزار، مالی نے پانچ سو اور انکل آسکر نے دو سو پاؤنڈ ایک اور گھوڑے پر لگائے جس کے جیتنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر تھے۔ لیکن وہی گھوڑا اوّل آیا اور پال دس ہزار پاؤنڈ جیت گیا۔

ریس کے بعد انکل آسکر نے ایک اندیشے کا اظہار کیا۔ ”دیکھو بیٹا سچی بات یہ ہے کہ مجھے اب کچھ گھبراہٹ شروع ہو گئی ہے۔ اس عمر میں تم اتنے پیسے کا آخر کیا کرو گے؟ “

” میں یہ سب صرف اپنی امی کے لئے کر رہا ہوں۔ اور شاید اسی بہانے وہ خوفناک آوازیں بھی بند ہو جائیں۔“

”کون سی خوفناک آوازیں؟ “

”مجھے یوں لگتا ہے جیسے گھر کی دیواروں سے آوازیں آ رہی ہوں۔ بد قسمت، بد قسمت، پیسہ کہاں سے آئے۔ پیسہ کہاں سے آئے۔ یہ آوازیں مجھے پاگل بنا رہی ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ امی کو اتنا پیسہ مل جائے کہ وہ اپنے آ پ کو بد قسمت سمجھنا بند کر دیں۔ اور یہ آوازیں آنی بھی بند ہو جائیں۔“

” تو پھر تم اب کیا کرنا چاہتے ہو پال؟“

”میں امی کو یہ رقم دینا چاہتا ہوں لیکن بغیر بتائے۔

پال نے دس ہزار پاؤنڈ انکل آسکر کو دے دیے جو اس نے فیملی اٹارنی کو اس ہدایت کے ساتھ دیے کہ وہ دینے والے کا نام نہ بتائے۔ صرف یہ کہے کہ ایک دور کے رشتے دار نے یہ رقم چھوڑی ہے اور وہ اگلے دس سال تک اپنے یوم پیدائش پر ایک ایک ہزار پاؤنڈ وصول کرتی رہے گی۔

وکیل نے اہل خانہ کو اکٹھا کر کے یہ ہدایات دہرائیں۔ لیکن پال نے محسوس کیا کہ اس کی ماں کچھ خوش نہیں تھی۔ وہ مقروض تھی اور چاہتی تھی کہ اسے ساری رقم یک مشت مل جائے۔ کچھ دن کے بعد وکیل نے سب پیسے اس کے اکاؤنٹ میں جمع کرا دیے۔

اب اچانک گھر کے حالات میں ایک خوش گوار تبدیلی آئی۔ مخملیں پردے، نئے صوفے، ڈائننگ سیٹ، حتیٰ کہ ایک نئی کار تک آ گئی۔ گھر سے ”بد قسمت۔ پیسہ کہاں سے آئے“ کی آوازیں بھی ختم ہو گئیں۔

لیکن پل جھپکنے میں ماں کی فضول خرچیوں میں سب پیسہ ختم ہو گیا اور پھر سے قرض پر نوبت آ گئی۔ وہی آوازیں دو بارہ آنی شروع ہو گئیں۔ لیکن اب وہ اور بھی زیادہ بھیانک ہو گئی تھیں۔

اب پال کی بڑی بڑی نیلی آنکھوں سے وحشت ٹپکنے لگی تھی۔ آوازوں سے بچنے کے لئے پال اپنے کانوں پر ہاتھ رکھ لیتا لیکن آوازیں ایسے گونجتیں کہ لگتا تھا اس کا سر پھٹ جائے گا۔

ڈربی کی ریس چند ہفتوں میں ہونے والی تھی۔ یہ انگلینڈ کی بہت بڑی ریس سمجھی جاتی تھی۔ پال کے سر پر اس ریس کی دھن سوار تھی۔ ماں حیران تھی کہ ڈربی کی ریس میں ایسی کیا خاص بات ہے جس کا پال اتنی شدت سے انتظار کر رہا ہے۔

پال کے ریس جیتنے کے راز میں ایک اور راز پوشیدہ تھا جو اس نے نہ تو مالی کو بتایا تھا نہ انکل آسکر کو۔

جب پال ذرا بڑا ہوا تو نرسری سے اس کا بستر ایٹک میں پہنچا دیا گیا تھا۔ پال نے اصرار کیا کہ وہ لکڑی کے گھوڑے کو بھی اپنے نئے کمرے میں لے جائے گا۔ انکل آسکر اور مالی سمجھتے تھے کہ پال کو کوئی غیبی اشارہ ہوتا ہے جس سے اسے پتہ چل جاتا ہے کہ کون سا گھوڑا جیتے گا۔ لیکن ہوتا یہ تھا کہ پال جب گھوڑے پر بیٹھتا تو اس پر جیسے کسی آسیبی قوت کا غلبہ ہو جاتا۔ اس کی آنکھوں میں ایک وحشت چھا جاتی۔ چہرہ اور بال پسینے سے تر ہو جاتے۔ وہ اس فرضی سواری پر پورا زور لگا کر نڈھال ہو جاتا۔ گھوڑے کو چابک مارتا اور اسے تیز دوڑنے کی شہ دیتا اور ریس میں دوڑنے والے گھوڑوں کے نام دہراتا رہتا۔ ایک ایک کر کے باقی نام غائب ہو جاتے صرف ایک نام رہ جاتا۔ وہی گھوڑا ریس جیت جاتا تھا۔

ماں کے ساری رقم لٹانے کے بعد سے پال بہت پریشان رہنے لگا تھا۔ وہ کسی بات کا جواب نہ دیتا۔ اس کی نظریں دور افق کے پار دیکھتی رہتیں۔ اس کی ماں کا فکر سے برا حال تھا۔ وہ پال کی وجہ سے اب ہر وقت ذہنی اذیت میں مبتلا رہنے لگی تھی۔

ڈربی سے ایک رات پہلے وہ ایک ڈانس پارٹی میں گئی ہوئی تھی۔ آدھی رات کو جب پارٹی عروج پر تھی اس پر اچانک جیسے اضطراب کا دورہ پڑا۔ گھبرا کر اس نے گھر فون کیا جہاں آیا بچوں کی نگہبانی کر رہی تھی۔ آیا نے بتایا کہ وہ دونوں چھوٹی بیٹیوں کے ساتھ ہے جو بالکل ٹھیک ٹھاک ہیں۔ پال کافی پہلے سونے کے لئے اپنے کمرے میں چلا گیا تھا۔

پارٹی ختم ہونے میں ابھی دیر تھی لیکن ماں نے شوہر سے کہا کہ وہ ابھی گھر جانا چاہتی ہے۔ گھر پہنچتے ہی اس نے دبے پاؤں پال کے کمرے کا رخ کیا۔ جب وہ ایٹک جانے کے لئے سیڑھیاں چڑھ رہی تھی اسے کچھ عجیب سی آوازیں پال کے کمرے سے آتی سنائی دیں۔ اس نے دروازے سے کان لگا کر سننے کی کوشش کی تو لگا جیسے کوئی بھاری بھاری سانس لے رہا ہے اور ایک ہی لفظ دہرائے جا رہا ہے۔ اس نے آہستہ سے دروازہ کھولا۔ کھڑکی کی روشنی میں اسے ایک سایہ سا نظر آیا۔

یہ سایہ لکڑی کے گھوڑے کا تھا جس پر پال سوار تھا۔ ماں کا دل خوف اور تجسس سے ایسے دھڑک رہا جیسے پھٹ جائے گا۔ اب اس نے دروازہ پورا کھول دیا لیکن پال کو کچھ احساس نہیں ہوا کہ کوئی اسے دیکھ رہا ہے۔ ماں نے بجلی کا سوئچ آن کیا اور روشنی میں دیکھا کہ پال پسینے میں شرابور گھوڑے پر بیٹھا جیسے اسے سر پٹ دوڑا رہا تھا۔ ایک ہاتھ میں لگام اور دوسرے میں چابک جس کو وہ پوری قوت سے گھوڑے کی گردن پر مار رہا تھا۔

اس کی زبان پر صرف ایک لفظ کی تکرار تھی ”مالا بار، مالا بار، مالا بار۔“ ماں لپک کر پال کی طرف بڑھی۔ جیسے ہی اسے ہاتھ لگایا، پال ایک پتھر کی طرح فرش پر گر پڑا۔ ماں نے اسے اٹھانے کی کوشش کی لیکن اٹھا نہ سکی۔ ہولناک چیخ سن کر شوہر کمرے میں آیا اور پال کو اٹھا کر بستر پر لٹا دیا۔

ساری رات آنکھوں میں کٹی۔ پال بخار میں تپتا رہا۔ ماں باپ گیلی پٹیاں اس کے ماتھے پر رکھتے رہے۔ انکل آسکر کو فون کیا۔ ڈاکٹر کو بلایا لیکن بخار کی تپش ویسی ہی رہی۔ دوپہر کے وقت پال نے پھر مالا بار، مالا بار، مالا بار کی رٹ شروع کر دی۔ اتنے میں مالی خاموشی سے کمرے میں داخل ہوا۔ اس نے سرگوشیوں میں انکل آسکر کو بتایا کہ مالا بار جیت گیا ہے اور ایک کی بازی پر بیس کے حساب سے پال کو شرط پر بیس ہزار پاؤنڈ ملے ہیں۔

پال کی آنکھیں بند تھیں لیکن وہ ماں سے مخاطب تھا۔ ”امی، مالا بار ڈربی جیتے گا۔ وہ پہلے نمبر پر آئے گا۔ سب سمجھ رہے ہیں اس کے جیتنے کا کوئی امکان نہیں۔ اس پر بہت کم لوگ پیسے لگائیں گے۔ اس لئے مالا بار کی جیت کا انعام بہت بڑا ہو گا۔ میں نے اس پر ایک ہزار پاؤنڈ لگائے ہیں۔ امی اب آپ کو پیسے کی کوئی فکر نہیں رہے گی۔ اب بد قسمت۔ بد قسمت۔ پیسہ کہاں سے آئے۔ پیسہ کہاں سے آئے کی خوفناک آوازیں آنی بند ہو جائیں گی۔ اب مکان خاموش ہو جائے گا۔ آپ خوش قسمت ہو جائیں گی امی۔ آپ کی قسمت جاگ جائے گی۔ اب آپ کو پیسے کی کمی نہیں رہے گی۔“

یہ کہ کر نئی نئی دولت مند لیکن بد قسمت ماں کے بیٹے نے آخری سانس لی اور ماں کے بازؤں میں دم توڑ دیا۔

(ڈی ایچ لارنس کی کہانی کا ترجمہ از شاہد اختر)

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں