اشتہار

امیر تیمور: وہ جنگجو جس کی معذوری فتوحات کا راستہ نہ روک سکی

اشتہار

حیرت انگیز

مشہور ہے کہ امیر تیمور بیک وقت اپنے دونوں ہاتھوں کی قوّت سے کام لے سکتا تھا۔ اگر وہ ایک ہاتھ میں تلوار اٹھاتا تو دوسرے میں کلہاڑا تھام لیتا تھا۔ نوجوانی میں اس کا اعتقاد اس کہاوت پر پختہ ہوچکا تھا کہ ’جو ہاتھ تلوار اٹھانا جانتا ہے، تخت و تاج کا حق دار بھی ہوتا ہے۔‘ امیر تیمور سلطنت اور فتوحات میں‌ اس کہاوت کی جیتی جاگتی مثال بنا۔

چودہویں صدی عیسوی میں امیر تیمور کو اس کی سلطنت اور فتوحات کی بنیاد پر عظیم فاتح‌ کہا جاتا ہے جس کی ایک ٹانگ میں‌ نقص تھا۔ اسی وجہ سے بالخصوص مفتوحہ علاقوں میں‌ وہ تیمور لنگ کے نام سے مشہور تھا۔ امیر تیمور نے 1336ء میں سمرقند کے قریب کے ایک قصبے کیش میں آنکھ کھولی۔ ازبکستان اور وسطی ایشیا میں اسے عظیم فاتح کی حیثیت سے یاد کیا جاتا ہے۔

تیمور ایک ترک منگول قبیلے برلاس سے تعلق رکھتا تھا۔ چنگیز خان اور امیر تیمور دونوں کا جدِ امجد تومنہ خان تھا۔ تیمور لنگ کا تعلق اپنے وطن کے ایک معمولی خاندان سے تھا۔

- Advertisement -

تاریخ بتاتی ہے کہ بلخ میں اپنی تخت نشینی کے بعد امیر تیمور نے ان تمام علاقوں اور ریاستوں پر قبضہ کرنا اپنا مقصد قرار دیا جن پر چنگیز خان کی اولاد حکومت کرتی رہی تھی۔ اسی لیے وہ 37 سال کے عرصہ میں اپنی وفات تک جنگوں اور فتوحات میں‌ مصروف رہا۔ فتوحات اور ریاست کو وسعت دینے کے لحاظ سے تیمور کا شمار سکندرِ اعظم اور چنگیز خان کے ساتھ دنیا کے بڑے فاتحین میں کیا جاتا ہے۔ لیکن محققین اس بات پر متفق ہیں کہ وہ اپنے دورِ‌ حکم رانی میں کوئی قابلِ ذکر کارنامے انجام نہیں‌ دے سکا، بالخصوص اس کے مقبوضہ جات میں دیرپا، مستحکم اور تعمیری کام نہیں ہوا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ اپنے مفتوحہ ممالک کو اپنی سلطنت کا انتظامی حصّہ نہیں بناتا تھا بلکہ وہاں امیر مقرر کرکے اس سے اپنی اطاعت کا وعدہ لے کر اگلے محاذ کی تیاری میں جٹ جاتا تھا۔ مگر مؤرخین یہ بھی لکھتے ہیں‌ کہ جس علاقے میں امیر تیمور کی مستقل حکومت قائم ہوئی وہاں قیامِ امن اور عدل و انصاف کے علاوہ خوش حالی اور ترقّی کے لیے قابل قدر کوششیں کی گئیں۔ اس میں‌ شہروں کی تعمیرِ نو اور تجارت کو فروغ دینا شامل تھا۔

چودھویں صدی عیسوی میں‌ امیر تیمور نے سلطنتِ عثمانیہ اور بغداد یا دمشق کے حکم رانوں سے بھی ٹکر لی۔ وہ ایک ایسا سپاہ سالار اور جنگجو تھا کہ ان طاقتوں‌ کے لیے میدان میں اسے شکست دینا مشکل ثابت ہوا۔

دمشق کے ایک مشہور مؤرخ احمد بن عربشاہ کو امیر تیمور کا بڑا ناقد کہا جاتا ہے، لیکن انھوں نے بھی اسے ’ایک انتہائی باہمت اور طاقت ور‘ حکم راں تسلیم کیا۔

تیمور لنگ نے تخت نشینی کے بعد بہت تیزی سے فتوحات کیں اور وسطی ایشیا کے میدانوں سے لے کر کوہستانی دروں سے گزرتے ہوئے اپنی فوج کی طاقت کو منوایا۔ مؤرخین کے مطابق اس کی فوج میں مختلف قومیتوں اور خاندان کے لوگ اہم عہدوں‌ پر فائز تھے اور سپاہی بھی مختلف ممالک سے تعلق رکھتے تھے۔

کہتے ہیں‌ کہ جوانی میں‌ تیمور شدید زخمی ہوگیا تھا اور پیر سے لنگڑانے لگا تھا۔ ایک ایسے وقت میں جب سیاسی طاقت کے لیے جنگی صلاحیتیں بہت اہم سمجھی جاتی تھیں، اس طرح کی معذوری کسی بھی منصب دار مرد کے لیے ایک بڑا دھچکا تھی۔ لیکن یہ معذوری حیرت انگیز طور پر اس کی کم زوری نہیں‌ بنی۔ وہ

روس کی مہم، ایران پر لشکر کشی، ہندوستان پر حملہ، فتحِ شام، جنگِ انقرہ اور دوسری جنگی مہمات میں اس نے خود کو بہترین سپاہ سالار ثابت کیا اور فوجوں کو بڑی ذہانت سے دشمن کے مقابلے پر اتارا۔

کئی فتوحات کے بعد تیمور نے اس وقت چین پر حملے کی تیاری شروع کی جب وہ بوڑھا ہوچکا تھا، لیکن چوں کہ وہ اس خطّے پر حکومت کو اپنا حق سمجھتا تھا، اس لیے اس کی نظر میں اس کی عمر، فوج یا وسائل سے متعلق کسی بات اہمیت نہیں‌ رکھتی تھی۔ تاریخی کتب میں درج ہے کہ اس ارادے سے تیمور نے شدید سردی میں سیر دریا کے نام سے وسطی ایشیا کا ایک منجمد دریا پار کیا اور دوسری طرف پہنچا، مگر اس کی طبیعت بگڑ گئی۔ اسی مقام پر 1405ء میں آج کے دن تیمور لنگ نے وفات پائی۔ امیر تیمور کا مدفن اس کے دارُ السطنت سمر قند میں ہے جہاں مقبرے پر لوگ فاتحہ خوانی کے لیے آتے ہیں۔

آثارِ قدیمہ کے ماہرین اور مؤرخین کا کہنا ہے کہ امیر تیمور نے اپنے دارُ السّلطنت سمرقند پر خاص توجہ دی۔ امریکی محقق، مؤرخ‌ اور ادیب ہیرلڈ لیمب لکھتا ہے کہ سمر قند میں تیمور کے دورِ‌ حکومت کا آغاز ہوا تو وہاں تمدن اور تعمیرات کچھ نہ تھیں مگر بعد میں‌ تیمور کے ہاتھوں میں آکر یہ شہر ایشیا کا روم بن گیا۔ اس نے ہر مفتوحہ علاقے سے صناعوں، دست کاروں، علما اور اہلِ قلم کو وہاں طلب کیا اور سمرقند کو نہ صرف شان دار عمارتوں کا شہر بنایا بلکہ علم و ادب کا مرکز بھی بنا دیا اور اس کی بدولت وسطی ایشیا میں‌ تیمور کا بڑا چرچا ہوا۔

تیمور کی ایک آپ بیتی 1783ء میں منظرِعام پر آئی جسے ایک فرانسیسی مصنّف مارسیل بریون نے مرتب کیا تھا۔ کہتے ہیں‌ کہ تیمور کا تحریر کردہ اپنی یادداشتوں کا اصل نسخہ یمن کے بادشاہ جعفر پاشا کے پاس محفوظ تھا جو بعد میں ہندوستان سے ہوتا ہوا برطانیہ پہنچ گیا۔ اس کتاب میں‌ امیر تیمور کے کئی اہم اور تاریخی نوعیت کے واقعات کے علاوہ بہت سے دل چسپ واقعات بھی شامل ہیں۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں