لاس اینجلس کی بے قابو آگ بجھانے کیلیے سپر پاور امریکا کی پاور کم پڑ گئی ہے اور اس کام کے لیے قیدیوں تک کو طلب کر لیا گیا ہے۔
امریکی میڈیا کے مطابق کیلیفورنیا کے جنگلات میں پانچ دن قبل لگنے والے آگ پر دنیا کے سپر پاور ملک کہلانے والے امریکا کی تمام پاور کم پڑ گئی ہے۔ آگ تیزی سے پھیلتی اور سب کچھ خاکستر کرتی جا رہی ہے اور حالت یہ ہوئی ہے کہ ریاستی انتظامیہ نے آگ کے شعلے بجھانے کے لیے قیدیوں تک کی مدد طلب کر لی ہے۔
رپورٹ کے مطابق فائر فائٹرز کے ساتھ ایک ہزار کے قریب قیدی بھی آگ کے شعلے ٹھنڈے کرنے میں مصروف ہیں، مگر اب تک مکمل کامیابی نہیں مل سکی ہے۔ کاؤنٹی شیرف کا کہنا ہے تمام تر کوششوں کے باوجود صرف آٹھ فیصد آگ پر قابو پایا جاسکا ہے۔
لاس اینجلس میں لگنے والی امریکی تاریخ کی اس بڑی آگ میں اب تک ہلاکتوں کی تعداد 16 ہو چکی ہے اور درجنوں افراد لاپتہ ہیں۔ 12 ہزار سے زیادہ گھر جل کر راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہو چکے ہیں جب کہ 37 ہزار ایکڑ کا رقبہ شعلوں کی لپیٹ میں گھر چکا ہے۔
حکام کے مطابق ہولناک آتشزدگی کے باعث 2 لاکھ افراد کو نقل مکانی کرنی پڑی ہے، جب کہ نقصان کا ابتدائی تخمینہ تقریباً 150 ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔ ہائیڈرنٹس خشک ہوچکے مگر شعلوں کی بلندی آسمان کو چھونے لگی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا کا کوئی بھی پانی کا ذخیرہ اس آگ پرقابونہیں پاسکتا۔
اس آگ نے امیر وغریب کی تفریق کیے بغیر سب کو بے گھر کر دیا ہے۔ شہری اپنے گھر جلتے دیکھ رہے ہیں اور انتظامیہ ان کی مدد کرنے سے قاصر ہے۔ اس واقعے سے ہالی وُڈ اسٹارز اور ارب پتی افراد تک سڑکوں پر آ گئے ہیں جب کہ ہوٹل پناہ گزین کیمپوں میں تبدیل ہو گئے ہیں۔
صورتحال اتنی خوفناک ہو چکی ہے کہ انتظامیہ کو بے گھر افراد کی مدد کے لیے اپیل کرنا پڑی، جس کے بعد شہری بے گھر افراد کی مدد کے لیے کپڑے اور دیگر چیزیں عطیہ کر رہے ہیں۔
ریاستی انتظامیہ نے لوٹ مار کے خدشے کے پیش نظر نیشنل گارڈ کو تعینات کردیا گیا جب کہ مقامی افراد نے اپنے گھروں کی حفاظت کے لیے گلیوں میں گشت بھی شروع کر دیا ہے۔