کراچی: ماہرین طب کا کہنا ہے کہ اے ایم آر سے عالمی سطح پر 5 ملین اموات ہو چکی ہیں، جب کہ 2019 میں بیکٹیریل اے ایم آر براہ راست سوا ملین اموات کا سبب بنا۔
ملکی اور غیر ملکی محققین نے اینٹی مائیکروبیل ریزسٹنس (اے ایم آر) کو عالمی سطح پر صحت عامہ اور ترقی کے لیے سنگین خطرہ قرار دیتے ہوئے قدرتی اجزا کو مؤثر اینٹی مائیکروبیل ایجنٹس کے طور پر استعمال کرنے کی اہمیت پر زور دیا ہے۔
ماہرین نے اس حوالے سے بدھ کو بین الاقوامی مرکز برائے کیمیائی و حیاتیاتی علوم جامعہ کراچی کے تحت ’نیچرل پروڈکٹ کیمسٹری‘ کے موضوع پر منعقدہ 4 روزہ 16 ویں بین الاقوامی سمپوزیم کے آخری دن تقریریں کیں، سمپوزیم میں تقریباً 29 ممالک کے 60 سائنس دان جب کہ صرف پاکستان سے تقریباً 400 محققین نے شرکت کی۔
اطالوی سائنس دان پروفیسر ڈاکٹر مارسیلو ایریٹی نے کہا کہ اینٹی مائیکروبیل ریزسٹنس صحت عامہ کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے، جو ہر سال بڑی تعداد میں اموات کا باعث بنتے ہیں۔ انھوں نے کہا ایک مؤثر علاجی حکمت عملی یہ ہے کہ قدرتی اجزا کو روایتی اینٹی بائیوٹکس کے ساتھ ملایا جائے تاکہ اینٹی بائیوٹک مزاحمت پیدا ہونے کے خطرے کو کم کیا جا سکے، پودوں سے حاصل کردہ اجزا اینٹی مائیکروبیل ایجنٹس کے طور پر امید افزا ہیں۔
سویڈن سے آئے پروفیسر ڈاکٹر ہشام آر السیدی نے قدیم ادوار میں پودوں کے روایتی استعمال اور ان کے موجودہ طبی اور تحقیقی مطالعوں میں کردار پر گفتگو کی۔ انھوں نے بتایا کہ ہزاروں سال قبل قدیم مصری اور چینی تہذیبیں جڑی بوٹیوں اور پودوں سے ادویات تیار کرنے کے فن سے واقف تھیں۔
سویڈن کی پروفیسر ڈاکٹر یوٹے روملنگ نے کہا کہ اگرچہ جدید طب اور سائنسی ترقی نے بے شمار فوائد فراہم کیے ہیں، لیکن انھوں نے کچھ نئی بیماریوں کے پھیلاؤ میں بھی کردار ادا کیا ہے۔ ایرانی اسکالر پروفیسر ڈاکٹر بابک کبودین نے کہا کہ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران مصنوعی نینومیٹریل کے ذریعے جین تھراپی نے خاصی توجہ حاصل کی ہے، کیوں کہ اس میں وسیع پیمانے پر انسانی بیماریوں کے علاج کی صلاحیت موجود ہے۔