تازہ ترین

فیض حمید پر الزامات کی تحقیقات کیلیے انکوائری کمیٹی قائم

اسلام آباد: سابق ڈائریکٹر جنرل انٹر سروسز انٹلیجنس (آئی...

افغانستان سے دراندازی کی کوشش میں 7 دہشتگرد مارے گئے

راولپنڈی: اسپن کئی میں پاک افغان بارڈر سے دراندازی...

‘ سعودی وفد کا دورہ: پاکستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری ہوگی’

اسلام آباد : وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے...

پاکستان پر سفری پابندیاں برقرار

پولیو وائرس کی موجودگی کے باعث عالمی ادارہ صحت...

نو مئی کے مقدمات کی سماعت کرنے والے جج کیخلاف ریفرنس دائر

راولپنڈی: نو مئی کے مقدمات کی سماعت کرنے والے...

تقسیم کی ادھوری کہانی – امرت کور

”کاش تم میرے گاؤں کی اس پاگل عورت سے مل سکتے۔ یقین کرو یار، تجھے تیری محبت یوں مل جائے کہ خود تجھے احساس نہ ہو۔یہ جو درمیان میں رکاوٹیں ہیں نا، ان کے دور ہو جانے کا تجھے پتہ ہی نہ چلے اور زویا تیرے ہو جائے“۔ بھان سنگھ نے میرے چہرے پر دیکھتے ہوئے بے ساختہ کہا تو میں چونک کر اس کی طرف دیکھنے لگا۔ اگرچہ اس نے کھوئے ہوئے انداز میں بڑے خلوص کے ساتھ یقین بھرے لہجے میں کہا تھا، لیکن میں خود کچھ دیر کے
لیے سمجھ ہی نہ سکا کہ وہ میرا مذاق اڑا رہا ہے۔ مجھ پر طنز کر رہا ہے، ترس کھاتے ہوئے مجھے حوصلہ دینے کی ناکام کوشش کر رہا ہے یا پھر اس کی بات میں کوئی سچائی بھی ہے سوچند لمحوں بعد میں نے اس کا اصل مدعا جاننے کے لیے بڑے سکون سے پوچھا۔
”تم اس عورت کو پاگل بھی کہہ رہے ہو اور میرے اتنے بڑے گھمبیر مسئلے کا حل بھی بتا رہے ہو۔ اپنے لفظوں پر غور کرو، کہیں تم نے بے وقوفی والی بات تو نہیں کر دی ہے“۔
”نہیں یار….! میں سچ کہہ رہا ہوں“۔ اس کے لہجے میں یقین پہلے سے بھی پختہ ہو گیا تھا۔
”کیسے؟ کیا تم مجھے سمجھا سکتے ہو؟“ میں نے کچھ سوچتے ہوئے اس کی طرف دیکھ کر کہا جو خود کہیں کھویا ہوا تھا۔ میری بات سن کر اس نے مسکراتی ہوئی آنکھوں سے کہا۔
”بس ایک بار وہ تیرے سر پر ہاتھ پھیر دے نا تو تیری محبت تجھے مل جائے گی۔ یہ بات میں پورے یقین ہی سے نہیں دعویٰ سے بھی کہہ سکتا ہوں“۔ اس نے جوش بھرے انداز میں کہا تو چند لمحوں پہلے والی کیفیت مجھ پر پھر سے طاری ہو گئی۔ میں سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ وہ میرے ساتھ مذاق کے موڈ میں ہے یا پھر حقیقت میں وہ میرے دوا کی دوا بارے آگاہ کر رہا ہے۔


دوام – مکمل ناول پڑھنے کے لیے لنک پر کلک کریں


”یار تجھے پتہ ہے کہ میری اور زویا کی کہانی بالکل ختم ہو چکی ہے۔ اس کے والدین نے صاف انکارکر دیا ہے اور جن وجوہات کی بنا پر انہوں نے انکار کیا ہے۔ وہ ٹھیک ہیں۔ انہیں میں بھی سمجھتا ہوں اور تم بھی جانتے ہو۔ زویا جو آج بھی میری محبت میں تڑپ رہی ہے اس نے بھی اپنے دل پر بھاری پتھر رکھ لیا ہے۔ چند دن بعد وہ بھی ہمیشہ کے لیے مجھ سے بچھڑ جائے گی۔ ایسے وقت میں تمہارا یہ مذاق، کچھ سجتا نہیں ہے یار۔ یہ تو زخموں پر نمک چھڑکنے والی
بات ہے“۔ میں نے شکوہ بھرے لہجے میں اس سے کہا تووہ پھر اسی یقین بھرے انداز میں بولا۔
”چاہے کچھ ہو جائے یارا، بھی زویا کی شادی تو نہیں ہوئی نا۔ میں پھر تجھے یقین دلاتا ہوں کہ ایک بار امرت کور سے مل لو، تجھے پتہ ہی نہیں چلے گا کہ تیری راہ کی رکاوٹیں کس طرح دور ہو گئیں ہیں اور تیری محبت زویا تجھے کتنی آسانی سے مل جائے گی“۔
میں اس کی بات پر کوئی فیصلہ نہیں کر پارہا تھا، لیکن بھان سنگھ کے چہرے پر پھیلی ہوئی امید کی روشنی مجھے بتارہی تھی کہ وہ سچ کہہ رہا ہے۔ کیونکہ بھان سنگھ نے کم از کم زویا کے معاملے میں کبھی مجھ سے مذاق نہیں کیا تھا۔ بلکہ سب کچھ ختم ہو جانے باوجود بھی وہ ہمیشہ خوش گمان رہا تھا۔ وہ میرا کلاس فیلو تھا اور اس کا شمار میرے قریب ترین دوستوں میں سے ہوتا تھا۔ وہ امرتسر کے قریب ایک گاؤں جھتیوال سے تعلق رکھتا تھا۔ میں لاہور سے بریڈ فورڈ آیا تھا۔
ہم دونوں کامرس کی تعلیم کے لیے وہاں تھے۔ پنجابی زبان بولنے اور پنجاب سے تعلق ہونے کی بناءپر ہم دونوں کے درمیان دوستی ہوئی تھی۔ جوبہر حال بہت خوشگوار تھی۔ ہمارے مزید مشترکہ دوست بھی تھے، لیکن بھان سنگھ اپنی فطری معصومیت، خلوص اور کشادہ دلی کے باعث میرے پسندیدہ دوستوں میں سے ایک تھا۔ دوسرے دوستوں کی طرح اسے بھی اچھی طرح معلوم تھا کہ میں اور زویا ایک دوسرے کو کس حد تک چاہتے ہیں۔ مگرشاید قسمت میں ہم دونوں کا سنجوگ نہیں تھا۔ باوجود شدید خواہش کے ہمارے ملن کے درمیان ایسی رکاوٹیں تھیں جنہیں کم از کم میں ختم نہیں کر سکتا تھا۔ بریڈ فورڈ میں ہماری تعلیم ختم ہو گئی تھی اور چند دنوں بعد ہم وہاں سے جانے والے تھے۔ زویا کے لاہور جاتے ہی اس کے والدین نے اس کی شادی کر دینا تھی۔ کیونکہ وہ ساری تیاریاں مکمل کر کے بیٹھے ہوئے تھے۔ شاید وہ اس قدر جلدی میں نہ ہوتے، لیکن ہماری جو کوشش تھی، انہی کے باعث وہ سخت ہوگئے تھے۔زویا نے اپنے والدین کو منانے کی بھرپور کوشش کی تھی۔ مگر بری طرح ناکام رہی۔ ہم ناامید ہو کر اسے قسمت کا لکھا سمجھ کر ایک دوسرے سے بچھڑ جانے کا فیصلہ بھی کر چکے تھے۔ درمیان میں کیا رکاوٹیں تھیں، ان کے بارے بھان سنگھ بخوبی واقف تھا۔ وہ میری بے بسی کے دن تھے۔ زویا دو دن پہلے لاہور کے لیے روانہ ہو گئی ہوئی تھی۔ مجھ سے بچھڑتے ہوئے وہ کس قدر روئی تھی،یہ میں ہی جانتا تھا اور بھان سنگھ ان لمحات کا چشم دیدگواہ تھا۔ زویا کے چھن جانے پر میں اس قدر دل گرفتہ تھا کہ مجھے اپنا ہوش ہی نہیں رہا تھا۔ اس دن بھان سنگھ میرے فلیٹ پر آیا اور میری حالت دیکھ کر پریشان ہو گیا۔ پھر اصرار کر کے وہ مجھے یونیورسٹی لے آیا میں جانتا تھا کہ ایسا وہ صرف میرا ذہن ہٹانے کے لیے کر رہا ہے۔ ہم دونوں ایک لان میں لکڑی کی بینچ پر آبیٹھے تھے۔ گپ شپ کے دوران جب ہم زویا کی باتیں کر کے تھک گئے تو اس کے منہ سے بے ساختہ نکلنے والے اس انکشاف نے مجھے اس خاتون امرت کور کے بارے میں سوچنے پر مجبور کر دیا۔ نہ جانے کیوں میرے اندر تجسس ابھر آیا تھا۔ تب میں نے دلچسپی سے پوچھا۔
”بھان….! کیا تم مجھے اس خاتون امرت کور کے بارے میں مزید کچھ بتا سکتے ہو“۔
میرے یوں پوچھنے پر وہ چند لمحے خاموش رہا۔ مجھے یوں لگا جیسے وہ الجھ رہا ہو وہ کھوسا گیا۔ مجھے یوں لگا جیسے وہ خود سے کچھ گھڑنے کے لیے سوچ رہا ہے۔ حقیقت ہوتی تو وہ فوراً بتاتا۔ میں یہ سوچ رہا تھا کہ وہ کھوئے ہوئے انداز میں بولا۔
”کیوں نہیں بلال، میں کیوں نہیں اس کے بارے میں بتا سکتا، پر مجھے یہ سمجھ نہیں آرہی کہ اس کے بارے میں کیا بتاؤں؟“
”وہی جو تمہیں پتہ ہے؟“ میں نے تیزی سے کہا۔
”دراصل میری معلومات وہی ہیں جو میں نے اپنے والدین سے سنی ہیں یا پھر اِدھر اُدھر سے گاؤں والوں کی زبانی۔ میں تمہیں وہی بتا سکتا ہوں۔ اصل حقیقت کیا ہے، وہ میرے سمیت کوئی بھی نہیں جانتا“۔ اس نے پھر اسی الجھے
ہوئے لہجے میں کہا۔
”جو بھی معلومات ہیں وہی بتادو“۔ میں نے کرید کی۔
”وہ خاتون امرت کور….! اس وقت ستریا اسّی سال کے دورانئے میں ہوگی۔ مگر اس کی صحت اس قدر قابل رشک ہے کہ پچاس سے زیادہ کی نہیں لگتی۔ تقسیم ہند کے وقت اس کی عمریہی کوئی پندرہ سولہ سال کی رہی ہو گی۔ اس وقت وہ بڑی شوخ وشنگ، خوبصورت اور بڑی جرات والی لڑکی مانی جاتی تھی۔ انہی دنوں جب تقسیم ہند کے بعد فسادات پھوٹے، اس کے ساتھ کوئی ایسی ٹریجڈی ہو ئی کہ وہ نہ صرف بولنا چھوڑ گئی، بلکہ اس کی حالت پاگلوں جیسی ہوگئی۔ یوں سمجھ لو کہ اس کا دماغی توازن خراب ہوا تو ایک دم سے خاموش ہو گئی۔ وہ اپنے والد بلوندا سنگھ کی ایک بیٹی تھی۔ دو بھائی تھے اس کے۔ بلوندا سنگھ اپنی بیٹی کی حالت پر بہت پریشان تھا۔ بہت علاج کروایا، مگر کچھ بھی نہ ہوا“۔
”کیسی حالت تھی اس کی ؟“ میں نے پوچھا۔
”یہی بتاتے ہیں کہ وہ بالکل گم صم ہو گئی۔ کئی کئی دن تک نہ کھاتی تھی اور نہ پیتی تھی۔ ایک کمرے میں بند رہتی۔ خوف زدہ ہو گئی تھی۔ کئی برس بعد جب اس کا باپ نہ رہا۔ بھائیوں کی شادی ہو گئی۔ ان کے بچے ہو گئے۔ ان کے درمیان جائیداد بھی تقسیم ہوگئی۔ تب اس کی حالت کچھ سدھرنے لگی۔ وہ جو ہر وقت غلاظت میں رہتی تھی۔ خود کو صاف ستھرارکھنے لگی۔ مگر وہ کوئی بات نہیں کرتی تھی۔ کھایا پیا اور اپنے کمرے تک محدود رہتی تھی۔ بہت عرصے تک گاؤ ں والوں نے اسے دیکھا تک نہیں“۔بھان نے بتایا اور خاموش ہو گیا۔
”اس کے ساتھ کیا ہوا، یہ کسی کو معلوم نہیں ہو سکا“۔ میں نے پوچھا۔
”وہ کچھ بولتی تب نا ایسے کسی کو کیا معلوم ہوتا۔ خیر….! تقریباً دس پندرہ سال پہلے اس کے معمولات ہی بدل گئے۔وہ صبح سویرے اٹھتی ہے، نہاتی ہے، خود کو سجاتی سنوارتی ہے اور گاؤں کے مغرب کی طرف چلی جاتی ہے۔
وہاں کافی دیر گھومتی پھرتی رہتی ہے۔ ایک جگہ کھڑی ہو کر نہ جانے کیا بڑبڑاتی ہے مگر اس کی آواز نہیں آتی۔ بہت سوں نے سننے کی کوشش کی لیکن کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آسکا۔ دن چڑھے وہ واپس ہوتی ہے اور سیدھی گرودوارے جاتی ہے۔ وہاں جا کر ماتھا ٹیکتی ہے۔ پھر گروجی کی بانیوں میں سے کچھ پڑھتی ہے۔ وہ وہاں صرف گرو دوارے میں بولتی ہے۔ اگر کسی نے اس کی آواز سننی ہو تو وہیںسن سکتا ہے“۔ بھان نے خاصے جوش میں کہا تو میں
نے اضطرابی انداز میں پوچھنا چاہا۔
”یہ کوئی پاگل پن“۔ اس نے میری بات ٹوکتے ہوئے کہا۔
”او یار تم سنو گے بھی….“ یہ کہہ کر اس نے میری طرف دیکھا۔ میں خاموش رہا تو وہ کہتا چلا گیا۔ ”کسی طرح کا بھی موسم ہو، اس کے معمول میں کبھی فرق نہیں آیا۔ گرودوارے کے باہر اسے کبھی کسی نے بولتے ہوئے نہیں سنا۔ وہ کسی کے معاملے میں کبھی دخل نہیں دیتی۔ اپنے آپ میں مست رہتی ہے۔ اس کی کوئی معاشرتی زندگی نہیں۔ مگر پورا گاؤں اس کی عزت کرتا ہے اور اسے احترام دیتا ہے۔ میں نہیں جانتا یہ کب سے ہے لیکن اس کے بارے میں مشہور یہی ہے کہ وہ جس کے سر پر ہاتھ رکھ کر پیار دے دے اس کے بگڑے ہوئے کام سنور جاتے ہیں“۔ وہ بڑے سکون سے کہہ کر خاموش ہو گیا۔
”پاگل تو وہ پھر بھی نہ ہوئی، تم اسے سادھو، سنت، بھگت یا درویش قسم کی خاتون کہہ سکتے ہو“۔ میں نے اس کی طویل بات سن کر اپنے طور پر تجزیہ کیا۔
”چلو….! تم یہ کہہ لو، مگر کوئی نارمل بندہ یہ سب نہیں کر سکتا۔ گاؤں میں بھی اس کے بارے میں ایسی ہی ملی جلی رائے ہے کوئی اسے پاگل کہتا ہے اور کوئی تمہاری طرح سنت بھگت قسم کی کوئی چیز۔ میری اپنی ذاتی رائے یہ ہے کہ اس کے ساتھ ہونے والی ٹریجڈی نے اسے ایب نارمل کر دیا ہے اور تمہیں معلوم ہے ہمارے ہاں ایسے لوگوں کو بڑی پہنچی ہوئی مخلوق سمجھ کر اس سے امیدیں باندھ لیتے ہیں ۔ پھر بس مشہوری ہونے کی دیر ہے“۔ اس نے
اپنی ہی رو میں کہا تو میں نے اسے جتایا۔
”ہاں….! یہ آخری بات تم نے ٹھیک کہی۔ میں مانتا ہوں اسے لیکن سردار بھان سنگھ جی، کچھ دیر قبل جو تم نے اتنے یقین سے امرت کوربارے کہا ہے، تم خود ہی اپنی اس بات کی تردید کر رہے ہو“۔
”یہ سچ ہے کہ میرا ذہن نہیں مانتا۔ میری اپنی رائے جو ہے وہ میں نے تمہیں بالکل سچ بتا دی ہے، لیکن….! بلال تم یقین کرو، اس کے بارے میں یہی مشہور ہے۔ میں نے اپنے طور پر اس کی توجیہہ یہ گھڑی ہوئی ہے کہ جو اندر سے صاف دل ہوں۔ ان کے کام ہو جاتے ہیں۔ یا مثال کے طور پر یوں سمجھ لو کہ جس جوڑے کی شادی ہو جاتی ہے، وہ پُرخلوص اور پاکیزہ محبت کرنے والے ہوں گے اور جو نہیں پاتے ان کے من میں کہیں نہ کہیں کھوٹ ہوتا ہوگا۔ مطلب، پاکیزہ اور سچی محبت والے ہی اس سے مراد پاسکتے ہیں اور میں جانتا ہوں کہ تیری اور زویا کی محبت پوتر ہے،سچی ہے۔ اس خیال سے میں نے تمہیں امرت کور کے بارے میں بتایا“۔ آخر کار بھان سنگھ نے اپنی بات کی وضاحت کردی تو میں نے یونہی مزاح میں کہا۔
”اب دو باتیں ہیں بھان….! ایک تو یہ کہ فرض کرو، میں اس کے پاس چلا جاتا ہوں، وہ میرے سر پر ہاتھ پھیر دیتی ہے اور ہم مل نہ پائے تو کیا ہماری محبت جھوٹی ہوئی اور دوسری بات، میں یہ رسک لے لیتا ہوں۔ میں تمہارے ساتھ تمہارے گا ؤں جاتا ہوں ممکن ہے ا س خاتوں کی پرارتھنا میرے کام آجائے۔اس سے کم از کم مجھے یہ حوصلہ تو رہے گا کہ میں نے زویا کو پانے کےلیے ہر ممکن کوشش کی“۔
”تیرے من میں کیا ہے تُو بہتر سمجھتا ہے۔ زویا تیری قسمت میں ہے یا نہیں، میں اس بارے بھی کچھ نہیں کہہ سکتا، لیکن یہ جو دوسری بات کی ہے نا تم نے…. میرے دل کو لگتی ہے۔ تُو اگر میرے ساتھ چلنے کو تیار ہے تو چل میں تجھے لے چلتا ہوں“۔ وہ ایک دم سے تیار ہو گیا۔
”اوکے….! میری طرف سے پکا سمجھ، اب تیرے گاؤں تک پہنچنے میں جو سرکاری ریاستی اجازت نامے کی ضرورت ہے، وہ کس طرح ہو گا۔ یہ میں نہیں جانتا“۔ میں نے ایک بڑی رکاوٹ بارے اس کی توجہ دلائی تو وہ چند لمحے سوچتا رہا، پھر بولا۔
”کچھ کر لیتے ہیں یار۔ تم ذہنی طورپر تیار ہو جاؤ تو مجھے بتا دینا“۔
”میں ذہنی طور پر تیار ہوں۔ میری طر ف سے تو ابھی یہاں سے اٹھ اور چل گاؤں، میں تیرے ساتھ ہوں“۔
میں نے اپنا ارادہ ظاہر کیا۔
”چل ٹھیک ہے، میں کرتا ہوں کچھ“۔ بھان سنگھ نے پورے خلوص سے کہا تو میں بھی اندر سے اس کے ساتھ گاؤں جانے کے لیے تیار ہو گیا۔ ہم وہاں کچھ دیر تک بیٹھے رہے۔ وہ مجھے اپنے گاؤں کے بارے میں بتانے لگا۔ میں خیالوں ہی خیالوں میں امرت کور کو اس گاؤں میں پھرتے ہوئے محسوس کرنے لگا۔ اس وقت میرا حال اس پروانے کے جیسا تھا، جسے امید کی ہلکی سی روشنی دکھائی دے جائے تو وہ اس کی طرف دیوانہ وار لپکتا ہے۔ ہمیں یونیورسٹی کے لان میں بیٹھے ہوئے کافی دیر ہو چکی تھی۔ شام کے سائے ڈھل کر رات ہونے کا عندیہ دینے لگے تھے۔ سو ہم دونوں دوسرے دوستوں سے گپ شپ لگانے اور ہوٹلنگ کا ارادہ کر کے اٹھ گئے۔
اس شام میں امرت کور کو اپنے قریب تر محسوس کرنے لگا۔ ایک ہیولاسا میرے دماغ میں بن گیا۔ مجھے یوں لگا جیسے وہ میرے اردگرد ہی کہیں موجود ہے۔ میں ایک خاص طرح کی کشش اس میں محسوس کرنے لگا تھا۔ جس کے بارے میں بھان سنگھ سے میں نے کوئی ذکرنہیں کیا۔ رات گئے تک ہم اکٹھے رہے تھے، اس نے بھی دوبارہ امرت کور کا ذکر نہیں کیا۔ میں اس کے گاؤں جا سکوں گا یا نہیں، یہی سوال لیے میں اپنے فلیٹ چلا گیا۔

جاری ہے
**************

Comments

- Advertisement -