تازہ ترین

ایرانی صدر کی مزار اقبال پر حاضری، پھول چڑھائے اور فاتحہ خوانی کی

لاہور: ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کی لاہور آمد...

پاک ایران سرحد پر باہمی رابطے مضبوط کرنے کی ضرورت ہے، آرمی چیف

راولپنڈی: آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا کہنا ہے...

پی ٹی آئی دورِحکومت کی کابینہ ارکان کے نام ای سی ایل سے خارج

وفاقی حکومت نے پی ٹی آئی دورِحکومت کی وفاقی...

تقسیم کی ادھوری کہانی – امرت کور

زویا سے میری پہلی ملاقات بریڈ فورڈ ہی میں ہوئی تھی۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب مجھے وہاں گئے چند دن ہوئے تھے۔ میرا ابھی وہاں کوئی دوست نہیں بنا تھا۔ بس چند پاکستانی شناسا تھے یا پھر یہ بھان سنگھ تھا اس دن ہم کھانے پینے کے لیے کینٹین پر گئے تھے جو کہنے کو کینٹین ہے لیکن اچھا خاصا ریستوران ہے۔ وہاں انڈین فوڈ کے نام پر کچھ پاکستانی کھانے بھی مل جاتے تھے۔ ہم اس دن چار یا پانچ شناسا وہاں گئے تھے۔ ہمارے درمیان اتنی بے تکلفی بھی نہیں تھی۔ جیسے ہی ہم وہاں بیٹھے تو میری نگاہ لڑکیوں کے ایک گروپ پر پڑی۔ وہ بھی چند ایک ہی تھیں لیکن ان میں زویا بالکل ہی منفرد دکھائی دے رہی تھی۔ اس وقت میں زویا کا نام تک نہیں جانتا تھا۔ اس کی انفرادیت یہ تھی کہ اس نے اپنے سر پر سیاہ رنگ کااسکارف لیاہوا تھا اور عبایا طرز کے لبادے میں اپنا بدن ڈھکا ہوا تھا۔ سیاہ اسکارف میں اس کا گورے رنگ کا چہرہ دمک رہا تھا۔ اس کے پتلے پتلے ہونٹوں پر دھیمی دھیمی مسکراہٹ تھی۔ بڑی بڑی سیاہ آنکھوں سے وہ سامنے والی لڑکی کی طرف دیکھتے ہوئے اس کی بات بڑے غور سے سن رہی تھی۔ تیکھا ناک اور بھرے بھرے گال والی زویا، انہی لمحوں میں سیدھی میرے دل میں اتر گئی۔ وہ میرے دل میں کس قدر گھر کر چکی ہے، اس کا احساس مجھے اس وقت ہوا جب وہ اٹھ کرچلی گئی۔ تب سارا ریستوران ہی سُونا ہو گیا۔ میں چونکا اس وقت جب ایک پاکستانی شناسا کلاس فیلو اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہہ رہا تھا۔
”میں پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ اسکارف والی لڑکی پاکستان سے ہے، چند دن ایسے ہی رہے گی اور پھر چند مہینوں یہ یہاں کی انگریز لڑکیوں کو بھی پیچھے چوڑ جائے گی“۔
”تم یہ دعویٰ کیسے کر سکتے ہو؟“ میں نے یوں کہا جیسے مجھے اس کی بات بہت بری لگی ہو۔
”او یار !ایسے ہی ہوتا ہے پہلے پہل یہ بڑی نیک پروین بنتی ہیں اور پھر جو اپنا رنگ دکھاتی ہیں، تب دیکھنے والی ہوتی ہیں“۔ اس نے اپنے طور پر تبصرہ کیا۔ میں اس پر کچھ کہہ نہیں سکتا تھا، ممکن ہے اس کے تجربے میں ایسی کوئی بات ہو، لیکن زویا کے بارے میں اس کا یہ تبصرہ مجھے ذرا بھی اچھا نہیں لگا تھا۔ پھر کھانے اور دوسری باتوں کے دوران یہ بات آئی گئی ہو گی۔
اگلے دن یہ جان کر خوشگور حیرت ہوئی کہ وہ میری کلاس فیلو ہے۔ اگرچہ اس سے بات کرنے، اس سے ملنے یا تعارف کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں تھی لیکن ایک فطری جھجک نے مجھے روکے رکھا۔ اس طرح کئی ہفتے گزر گئے اور ہم دونوں میں ایک لفظ کا بھی تبادلہ نہیں ہوا۔ اس دوران میں نے محسوس کیا کہ وہ صرف لڑکیوں ہی میں زیادہ تر رہنا پسند کرتی ہے۔ کلاس اور کینٹین ہی دوایسی جگہیں ہوا کرتی تھیں جہاں ہمارا آمنا سامنا ہوتا۔ ان دونوں جگہوں پر وہ لڑکیوں ہی میں گھری دکھائی دیتی تھی۔ چند لڑکیوں میں اچھی خاصی تبدیلی آگئی تھی۔ وہ شلوار قمیص کی جگہ پتلون یا جینز پہننے لگی تھیں۔ مگر زویا نے نہ اسکارف اتارا اور نہ ہی عبایا۔ جس طرح میں نے اسے پہلے دن دیکھا تھا،وہ وہی تھی۔ نہ جانے کیوں میں دل ہی دل میں یہی چاہتا تھا کہ زویا ویسی کی وہی ہی رہے۔ وہ خود کو نہ بدلے ۔ میں نے اسے کبھی تنہا نہیں دیکھا تھا۔ شاید اس کے اندر مشرقی لڑکی بہت مضبوط تھی۔
وہ خزاں کے آخری دن تھے۔ یخ ہوا نے خوشگواریت میں بدلنا شروع کر دیا تھا۔ میں ان دنوں ہاسٹل میں رہتا تھا۔ اس دن میری کلاس کودیر ہو گئی تھی اور میں تیزی سے اپنے کلاس روم جانے کے لیے جارہا تھا اچانک دائیں طرف کی راہ سے مجھے زویا آتی ہوئی دکھائی دی۔ پہلی بار میں نے اسے تنہا دیکھا تھا۔دن کے پہلے پہر میں ہاسٹل سے نکلتے ہی اس سے سامنا ہو جانے پر میں انتہائی خوشگواریت محسوس کرنے لگا۔ ہم دونوں تقریباً ایک ساتھ ہی کلاس روم جانے والے راستے پر آگئے۔ تبھی اس نے بڑے اعتماد سے مجھے السلام علیکم کہا، تب میں نے اسے پُر شوق انداز میں جواب دیا تو اس نے پوچھا۔
”آپ لاہور سے ہیں؟“
”ہاں…. اور آپ….؟“ میں نے پُرتجسس انداز میں پوچھا۔
”میں بھی وہیں کی ہوں، آپ کے بارے میں چند دن پہلے پتہ چلا ہے“۔اس نے یوں کہا جیسے بڑی اہم معلومات مجھے دے رہی ہو۔ تب تک ہمارا وہ چند قدم کا فاصلہ طے ہو گیا تھا۔ تب میں نے کہا۔


اس ناول کی گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے لنک پر کلک کریں


”کلاس کے بعد اگر آپ فری ہوں تو؟“
”ہاں کیوں نہیں، میں یہیں آپ کا انتظار کروں گی“۔ اس نے خوشگواریت سے کہا اور ہم کلاس میں داخل ہو گئے۔ اس دن مجھ سے اچھی طرح نہیں پڑھا گیا۔ میں یہی سوچتا رہا کہ اس سے کیا باتیں کروں گا۔ اس دن کلاس بھی مجھے طویل لگی۔ یوں خود سے الجھتے ، سوچتے اور خود کلامی کرتے کلاس ختم ہو گئی۔ میں نے جان بوجھ کرکلاس روم سے نکلتے ہوئے دیر کی۔ تب میں نے دیکھا، وہ راستے کے کنارے کھڑی ہوئی تھی۔ میں اس کے قریب پہنچا اور کہا ۔ ”آئیں کینٹین میں چل کر بیٹھتے ہیں“۔
”سوری بلال….! میرے پاس اتنا وقت نہیں ہے۔ میں نے آج ہی لندن کے لیے نکلنا ہے۔ تھوڑا سا وقت ہے، چونکہ میں نے آپ سے وعدہ کیا تھا، سو یہاں منتظر تھی“۔ اس نے معذرت خواہانہ انداز میں کہا۔
”آپ نے تنہا جانا ہے یا ساتھ میں کوئی دوسرے بھی ہیں“۔ میں نے اس سے پوچھا۔
”نہیں، میں نے تنہا جانا ہے۔ دراصل وہاں ہمارے کچھ رشتے دار رہتے ہیں۔ میں ایک ویک اینڈ ان کے ساتھ گزارتی ہوں۔ اس لیے معذرت۔ ویک اینڈ کے بعد ہم بہت ساری باتیں کریں گے“۔ اس نے مسکراتی ہوئی آنکھوں سے کہا۔
”اوکے…. ! تم جاؤ“۔ میں نے خوش دلی سے کہا تو سلام کر کے اس راہ پر مڑ گئی۔ جدھر ان کا ہوسٹل تھا۔ بلاشہ اسے ہاسٹل پہنچے کے لیے بھی وقت چاہئے تھا۔
ویک اینڈ کے بعد میری اور اس کی طویل ملاقات ہوئی۔ زویا، ایک پیر گھرانے سے تعلق رکھتی تھی۔ پنجاب کے ایک دورافتادہ علاقے میں درگاہ تھی۔ جہاں ان کا خاندان متولی تھا۔ کچھ عرصہ پہلے تک وہ اتنے کشادہ ذہن نہیں تھے کہ اپنے بچوں کو اور خصوصاً بچیوں کو اتنی دور تعلیم کے لیے بھیج سکیں۔ چونکہ یہ اکلوتی تھی اور اس کے والد یہاں سے پڑھ کر جا چکے تھے۔ اس لیے اسے بھی اجازت مل گئی۔ و ہ سیّد تھے۔ ان کے خاندان کا سیاسی پس منظر بھی تھا۔ اس کے کزن بھی دنیا کے مختلف تعلیمی اداروں میں پڑھ رہے تھے۔ زویا کو پوری امید تھی کہ وہ اپنے خاندان کی سیاسی وارث ضرور ثابت ہو گی۔ میں اس کا تعارف سن کر ہی بہت متاثر ہوا۔ دولت کی ان کے پاس کمی نہیں تھی اور حکومتی ایوانوں تک ان کی رسائی تھی۔ میں اس کے تعارف سے اس لیے متاثر ہوا تھا کہ ایسے گھرانوں کی لڑکیاں اس طرح دیارغیر میں تعلیم حاصل کرنے نہیں آتیں، لیکن ایک طرف جہاں زویا کی ضد تھی کہ وہ بریڈ فورڈ پڑھنے جائے گی تو دوسری طرف ان کی کچھ خاندانی کی مجبوریاں بھی تھیں۔ اس کا باپ نہیں چاہتا تھا کہ زویا کسی طرح بھی اپنے خاندان کے لڑکوں سے پیچھے رہے اور احساس کمتری میں مبتلا ہو جائے۔ یہاں ان کی اپنی سیاسی ساکھ کا بھی سوال تھا۔
”تم نے اپنے بارے میں نہیں بتایا بلال؟“ زویا نے اپنے بارے تفصیل سے بتا کر مجھ سے پوچھا تو میں نے بڑے انکسار سے کہا۔
”میرے پاس بتانے کے لیے کیا ہے؟ دادا جی زمینداری کرتے رہے اور والد صاحب بزنس میں آگئے بھلے وقتوں میں انہوں نے ایک فوڈپراڈکٹ کی فیکٹری لگائی تھی جو اب پورے پاکستان میں مشہور ہے“۔
”تو سیدھا کہو نا تم لوگ صنعت کار ہو“۔ اس نے ہنستے ہوئے کہا۔
”میں تو نہیں ہوں نا ابھی“۔ میں نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا۔ پھر ہمارے درمیان دیگر موصنوعات پر باتیں ہوتی چلی گئیں۔
اس پہلی طویل ملاقات کے بعد ہمارے درمیان اکثر لمبی لمبی باتیں ہوتیں۔ یہاں تک کہ اچھا خاصا مضبوط تعلق بن گیا۔ اس کے اور میرے ہاسٹل کے درمیان خاصا فاصلہ تھا۔ پہلے پہل وہ اپنا ویک اینڈ لندن میں گزارتی تھی۔ پھر میرے ساتھ گزارنے لگی۔ زندگی کا کون سا ایسا موضوع تھا جو ہمارے زیر بحث نہیں آیا۔ کچھ دوست مجھے چھوڑ گئے اور کئی دوستوں کو میں چھوڑ گیا، لیکن ایک یہی بھان سنگھ اور دوسرا اسد جعفری، یہ دونوں میرے دوست رہے۔ زویا کی اپنی چند سہیلیوں سے کمپنی تھی یا پھر وہ فقط میرے ساتھ ملتی۔ بریڈ فورڈ کی ہر جگہ ہم نے گھوم پھر لی۔ ایک دوبار لندن سے بھی ہو آئے۔ یوں ایک سال سے زیادہ عرصہ گزر گیا ۔
ایک دن ایسے ہی میں، بھان سنگھ اور اسد جعفری ہم یونیورسٹی کے لان میں سبز گھاس پر بیٹھے ہوئے تھے کہ اسد نے اچانک کہا۔
”اوئے بلال….!یہ زویا سے تیرے تعلق کی گاڑی محبت کے اسٹیشن پر پہنچی ہے کہ نہیں یا ابھی نان اسٹاپ چلتے ہی چلے جارہے ہو“۔
”میں سمجھا نہیں، محبت مطلب …. وہ ایک اچھی دوست ہے اور بس….“ میں نے واقعتا اس کی بات نہ سمجھتے ہوئے کہا۔
”اوئے تُو اتنا معصوم بھی نہیں ہے۔ میں ہوتا نا تو اس وقت تک اس سے شادی بھی کر چکا ہوتا، جتنا تُو نے اس کے ساتھ وقت گزار دیا ہے۔ آخر اس تعلق کی کوئی منزل تو ہو گی نا یار؟“ اسد جعفری نے طنزیہ انداز میں کہا تو بھان سنگھ نے بھی اپنے خیال کا اظہار فرما دیا۔
”ہاں یار….! اسد ٹھیک کہہ رہا ہے۔ اتنی دیر میں تو بہت کچھ ہو جاتا ہے، تم ابھی دوستی ہی لیے پھرتے ہو“۔
”مجھے یہ سمجھ نہیں آرہی کہ کیا ہونا چاہئے مزید، بس چلتا ہے تو چلتا رہے، تم لوگوں کو کیا تکلیف ہے۔ ہمارے تعلق میں زویا کی وجہ سے کوئی….“ میں نے کہنا چاہا تو اسد جعفری نے تیزی سے کہا۔
”اونہیں….! تم ہمارے اچھے دوست ہو، ہمیں زویا سے بھی کوئی اعتراض نہیں۔ ہم تو یہ سننے کو بے تاب ہیں کہ حضور کو اس سے محبت ہو گی ہے۔ اس نے یا تم نے اظہار محبت کر دیا ہے اور ایک نئی لّو اسٹوری کے ہم گواہ بن جائیں؟“
”نہیں یار….! میں اس سے کبھی اپنے جذبات کا اظہار نہیں کروں گا۔ وہ کسی اور ہی دنیا سے تعلق رکھتی ہے اور میں کسی اور دنیا سے، میں اسے کسی مشکل میں نہیں ڈالناچاہتا۔ بس یہاں جو اچھا وقت گزر جائے، میں اسے ہی اپناحاصلِ زندگی سمجھ لوں گا“۔ میں نے پوری دیانت داری سے اپنے دل کا حال اس سے کہہ دیا۔
”لیکن اگر اس نے تم سے اظہارِ محبت کر دیا تو….؟“ بھان سنگھ نے پورے خلوص سے اور سنجیدگی سے پوچھا۔
”تب دیکھ لوں گا۔ کم از کم میں اسے کسی امتحان میں نہیں ڈالنے والا“۔ میں نے جواب میں کہا۔
”چلو اچھا ہے یار….! تمہارا پتہ تو چلا، میں تو سمجھ رہا تھا کہ تم یونہی فلرٹ کئے جارہے ہو۔ پر یہ دیکھ لو، اگر تم دونوں میں محبت ہو گئی نا، تو پھر واقعی بہت مشکل وہ جائے گا“۔ اسد نے کہا۔
”میں سمجھتا ہوں اس لیے محتاط ہوں“۔ میں نے اس کی بات سمجھ کر ہی جواب دیا۔ بھان سنگھ بھی سمجھتا تھا کہ آنے والے وقت میں ہمارے درمیان کیا رکاوٹیں آنے والی ہیں۔ سو بات وہیں پر ختم ہو گئی۔
دو برس گزرنے کا پتہ ہی نہیں چلا۔ زویا میرے اس قدر قریب آگئی تھی کہ میں اس کے سوا کسی دوسرے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ بریڈ فورڈ جیسے ماحول میں کیا کچھ ایسا نہیں تھا، جسے میں اپنے تصرف میں نہ لے آتا۔ یہاں دوستی اور تعلق کے معنی ہی کچھ اور تھے اور تھوڑے عرصے کا تعلق چلتا اور ایک خاص منزل تک پہنچ کر ختم ہو جاتا، نئی ترجیحات سامنے آجاتیں۔ رستے بدل جاتے۔ زندگی کا لطف کئی ایسی دلچسپیوں میں دیکھا جاتا جو کم از کم مشرقی ماحول میں انتہائی ناپسندیدہ تھیں۔ ایسے ماحول میں میرا اور زویا کا تعلق عجیب سی نگاہوں سے دیکھا اور ہم دونوں ایک دوسرے سے تعلق نبھاتے چلے جارہے تھے۔ سوچے بغیر کہ کون ہمیں کس انداز میں دیکھتا ہے۔
وہ ایک انتہائی خوشگوار شام تھی۔ جب میں اور زویا لندن میں دریائے ٹیمز کے کنارے بینچ پر بیٹھے ہوئے باتیں کر رہے تھے۔ تب اچانک میں نے اس سے پوچھا۔
”زویا….!تم نے کامرس کی تعلیم ہی کیوں پسند کی۔ ایسا کیا تھا جس نے تمہیں ایسا کرنے پر مجبور کیا۔ تم کوئی دوسری تعلیم بھی تو حاصل کر سکتی تھی جو آگے چل کر تیرے کام آئے“۔
”دنیا بدل رہی ہے بلال….! اگر میں سیاست میں آئی تو وہ میری مجبوری ہو گی۔ زمینداری مجھے بالکل پسند نہیں کیونکہ میں نے ہمیشہ خود کو صنعت کار سوچا ہے۔ میں اس شعبہ میں آؤں گی ضرور“۔ اس نے اپنے خیالوں میں نہ جانے کیا سوچتے ہوئے کہا۔ پھر میری طرف دیکھ کر مسکراتے ہوئے بولی۔ ”اور کیا میں ادب پڑھتی اور یہاں بیٹھ کر محسوس کرتی کہ دریائے ٹیمز کا پانی بہہ رہا ہے اور اس پر کیا رومانوی ماحول ہے۔ کتنے انگریز شاعروں نے کیا کیا جذبات کا اظہار کیا ہے۔ مجھے بتاؤ، اس کا آج کی زندگی پر کیا اثر ہے“۔
”زویا….! تم اپنے من سے رومانوی جذبوں کو الگ نہیں کر سکتی ہو، یہ بھی اسی طرح ضروری ہیں، جیسے کہ سانس لینا“۔ نہ جانے کیوں میں نے اپنی رو میں کہہ دیا۔ تب وہ انتہائی کی جذباتی انداز میں بولی۔
”میں مانتی ہوں بلال کہ محبت بھی انسان کے لیے اتنی ضروری ہے جتنی ہوا اس کے لیے اہم ہے۔ یہ جو ہمارے اردگرد رنگینیاں ہیں یہ ساری اسی وجہ سے ہیں، لیکن ….! اس کا حصول بھی کمتر درجے میں نہیں ہونا چاہئے۔ نہ جانے کیوں محبت کے بارے میں یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ اس میں ملنا ضروری ہے اور اس کے لیے اپنے ان پیاروں کو نظر انداز کر دینا جوان کی زندگی کا حصہ ہیں۔ ہم جس معاشرے سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہاں ہمیں بہت سارے لوگوں کے ساتھ جینا ہے۔ ان کی نگاہوں میں گر کر اپنی محبت کا حصول…. میں اسے محبت کی توہین سمجھتی ہوں“۔
”تم ایسا کیوں سوچتی ہو، اس کے برعکس بھی تو ہو سکتا ہے“۔ میں نے یونہی بات بڑھا دی۔
”ہونے کو تو کیا نہیں ہو سکتا، ہم ابھی اور اسی وقت ساری حدیں پار کر سکتے ہیں، لیکن اتنا وقت گزار دینے کے باوجود ہم نے ایسا کیوں نہیں کیا؟ ہمارے جسم ایک دوسرے کے لیے ابھی تک انجان جزیرے کیوں ہیں؟ یہ صرف اس لیے بلال کہ ہم ایک دوسرے کی عزت انتہائی درجے تک کرناچاہتے ہیں اور یہ عزت اس طرح سے ممکن ہے کہ ہم پورے مان اور وقار کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ چلیں۔ ورنہ بدن بھنبھوڑنے کی خواہش چند ٹکوں میں بھی پوری کی جا سکتی ہے“۔ اس نے انتہائی جذباتی انداز میں میرے چہرے پر دیکھتے ہوئے کہا۔


دوام – مکمل ناول پڑھنے کے لیے لنک پر کلک کریں


”تم ٹھیک کہتی ہو زویا….! ہم ایک دوسرے کے اتنے قریب ہونے کے باوجود بھی بہت دور ہیں۔ اچھا ہے جب ہم یہاں سے چلے جائیں گے تو ہمیں ایک دوسرے کو بھولنے میں مشکل نہیں ہو گی“۔ میں نے خود پر قابو پاتے ہوئے سکون سے کہا تو وہ تڑپ اٹھی۔ اس نے شدت جذبات میں میرا ہاتھ پکڑ لیا اور تقریباً بھنچتے ہوئے کہا۔
”تم غلط کہہ رہے ہو بلال….! ہم ایک دوسرے کو بھول ہی نہیں سکتے، شاید تم بھول جاؤ، مگر میں نہیں، کیونکہ میں تم سے محبت کرتی ہوں۔ شدید محبت اور اپنی محبت کو کبھی کوئی نہیں بھلا سکتا“۔
میں اس کے چہرے پر دیکھ رہا تھا۔ دھواں دھواں ہوتا ہوا چہرہ، لرزتے لب، بند آنکھوں کی تھرکتی ہوئی پلکیں جو دھیرے دھیرے آنسوؤں سے بھیگ رہی تھیں۔ وہ ہولے ہولے کانپنے لگی تھی۔ نہ جانے وہ اپنے اندر جذبات کا کس قدر جوار بھاٹا محسوس کر رہی تھی۔ تبھی میں نے ا س کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑتے ہوئے کہا۔
”زویا….! کیا تم مجھ سے اتنی شدید محبت کرتی ہو؟“
”ہاں….! شاید اس سے بھی کہیں زیادہ، میں چاہتی ہوں کہ اپنی باقی زندگی تمہارے ساتھ گزاوں، میری محبت نہ جانے مجھے کیسے کیسے خواب دکھاتی ہے، لیکن میں کسی کی اور اپنی نگاہوں میں گر کے تجھے نہیں پانا چاہتی۔ میں پورے عزت و وقار کے ساتھ تمہاری ہو جاناچاہتی ہوں۔ میں مانتی ہوں کہ ہمارے اس ملن میں بہت ساری رکاوٹیں آئیں گی۔ ان رکاوٹوں کو میں خود پار کرنے کی پوری کوشش کروں گی۔ مل گئے۔ تو ٹھیک ، ورنہ ہماری محبت کا سفررائیگاں تو نہیں جائے گا۔ میں تم سے اپنی آخری سانس تک محبت کرتی رہوں گی“۔ وہ لرزتے ہوئے لہجے میں کہتی چلی گئی تھی۔
دریائے ٹیمز کے کنارے اس بینچ پر بیٹھنے سے قبل میرے ذہن میں بھی نہیں تھا کہ زویا اپنی محبت کا اظہار اس شدت سے کرے گی کہ مجھے بولنے کا موقع تک نہیں ملے گا۔ میں اس سے اختلاف کرہی نہیں سکتا تھا۔ اس لیے اس کا ہاتھ چھوڑتے ہوئے بولا۔
”میں اس سفر میں تمہارے ساتھ ہوں زویا“۔
”میں اپنے والدین کوتمہارے لیے قائل کرنے کی ہر ممکن کوشش کروں گی۔ انہیں مناؤں گی، وہ مان گئے تو ٹھیک ، وہ اپنے ہاتھوں سے مجھے تمہارے حوالے کر دیں گے تو ٹھیک، ورنہ میں اپنا آپ نہیں گراؤں گی۔ اس کے لیے تم مجھے معاف کر دینا“۔یہ کہتے ہوئے اس نے اپنا سر میرے کاندھے سے ٹکا دیا۔ میرے پا کہنے کے لیے کچھ نہیں تھا۔ اس لیے خاموشی ہمارے درمیان میں آئی۔ پھر کافی دیر یونہی خاموش بیٹھے رہنے کے بعد ہم وہاں سے اٹھ گئے۔
زندگی میں ایک عجیب ٹھہراؤ آگیا ہوا تھا۔ زویا میری ہو گی یا نہیں؟ یہی سوال میری زندگی پرچھا گیا جس کا جواب ابھی وقت کی پنہایوں میں تھا۔ میں اس بارے حتمی طور پر کچھ بھی نہیں کہہ سکتا تھا۔ اب سارا کچھ زویا ہی نے کرنا تھا۔ اسے ہی اپنے والدین کو بتانا تھا، انہیں قائل کر کے راضی کرنا تھا۔ جبکہ ہماری تعلیم کا آخری سال شروع ہوئے ایک مہینہ گزر چکا تھا۔ زویا نے اپنے طور پر اپنی والدہ کو اعتماد میں لینا شروع کر دیا تھا۔ میرے سامنے فون پر اس نے میرے بارے تمام تر اپنی والدہ کو بتا دیا تھا۔ پھر اس وعدے پر بات ختم ہوئی تھی کہ وہ اس کے والد سے بات کرے گی۔ تقریباً دو ہفتے اس گفتگو میں گزر گئے۔ جواب کیا ملتا ہے، اس کا کچھ احساس تو تھا لیکن وہ پُر امید بھی تھی ۔ تب جو جواب آیا وہ ہی تھا کہ میرا اور اس کا ملن ناممکن ہے۔ ہمارے درمیان سب سے بڑی رکاوٹ ذات پات کی تھی۔ وہ سیّد زادی تھی اور میں ارائیں ذات سے تعلق رکھتا تھا۔ دوسرا وہ خاندان کے لڑکوں کو چھوڑ کر باہر کیوں اس کی شادی کریں۔ اس کے ساتھ یہ پیغام آگیا کہ اس خناس کو دماغ سے نکال دے۔ اگر نہیں نکلتا تو فوراً واپس آجائے۔ اگر والدین سے ہٹ کر اپنی مرضی کرے گی تو پھر وہ ان میں سے نہیں ہے۔ پلٹ کر اپنا منہ نہ دکھائے۔ یہ سب بتاتے ہوئے زویا بہت روئی تھی۔ تب میں نے اسے حوصلہ دیتے ہوئے کہا۔
”تمہیں اپنی محبت پر مان ہونا چاہئے زویا۔ نہیں مل سکتے، کوئی بات نہیں“۔
”مگر میں کوشش کرتی رہوں گی۔ یہاں تک کہ وہ عزت و وقار کے ساتھ مجھے تمہارے ساتھ شادی کے بندھن میں باندھ دیں“۔ اس نے بھیگے ہوئے لہجے میں مجھے حوصلہ دیتے ہوئے کہا۔
زویا اپنے طور پر بھرپور کوشش کرتی رہی۔ اس نے اپنے والدین کو یہ باور کرا دیا تھا کہ میں ایسا ویسا کچھ نہیں کروں گی، لیکن آپ سے بہتر فیصلے کی امیدوار ہوں۔ اپنے فیصلے پر نظر ثانی کریں۔ وہ جس قدرکہتی اسی قدر کوئی سخت حکم مل جاتا۔ یہاں تک کہ اسے یہ تک بتا دیا گیا کہ اس کی شادی اس کے کس کزن سے ہو گی۔اس کے واپس جاتے ہی اس کی شادی کر دینے کے پورے انتظامات تھے۔ زویا سے یہ بھی کہا گیا کہ وہ اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ کر واپس چلی آئے۔ تقریباً آٹھ ماہ تک یہی چلتا رہا۔ یہاں تک کہ اس کے والد نے اسے یہاں سے لے جانے کے لیے خود لندن آنے کی دہمکی دے دی۔ تب زویا نے اپنی تعلیم مکمل کی اور واپس جانے کے لیے تیار ہو گئی۔
تین دن پہلے میں، بھان سنگھ اور اسد جعفری اسے ائیر پورٹ تک چھوڑنے گئے تھے۔ تمام راستے وہ روتی رہی تھی اور جس وقت وہ جانے کے لیے تیار تھی۔ اس وقت مجھے پہلی ملاقات میں کسی کا تبصرہ یاد آیا تھا۔ وہ اپنے تعلیمی دورانئے میں ذرا نہیں بدلی تھی۔ وہی اسکارف وہی عبایہ…. وہ میری طرف بھیگی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی۔ جہاز تیار ہونے کا اعلان ہوا تو نہ جانے اسے کیا ہوا۔ وہ میرے گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھی۔ میں نے اسے خود سے الگ کہا۔ اس کی آنکھوں میں دیکھا اور مسکراتے ہوئے کہا۔
”یہ سوچ کر خود پر مان کرو کہ ہمارے محبت کتنی پاکیزہ ہے۔ جاؤ، میں تجھے خدا کے سپرد کرتا ہوں“۔
اس سے کچھ بولا ہی نہیں گیا۔ اس نے اپنے آنسو صاف کئے، دھیرے سے مسکرائی۔ ہم سب کی طرف دیکھا اور نگاہوں سے اوجھل ہو گئی۔

جاری ہے
**************

Comments

- Advertisement -