آنند بخشی نے بولی وڈ کے لیے سدا بہار نغمات تخلیق کیے اور لگ بھگ چار دہائیوں تک شائقین کو اپنی فلمی شاعری کا دیوانہ بنائے رکھا۔ آنند بخشی 30 مارچ 2002ء کو ممبئی میں وفات پاگئے تھے۔
نغمہ نگار آنند بخشی 21 جولائی 1930 کو راول پنڈی میں پیدا ہوئے تھے جو آج پاکستان کا حصّہ ہے۔ آنند بخشی جیسا حساس طبع اور شاعر اپنے آبائی علاقہ کو کبھی فراموش نہیں کرسکا اور ہمیشہ روال پنڈی اور اپنے احباب کی یاد ان کے دل میں زندہ رہی۔ آنند بخشی کو بچپن میں پیار سے نندو کہہ کر بلایا جاتا تھا۔ ان کا نام آنند پرکاش تھا۔ لیکن فلمی دنیا میں آنند بخشی کے نام سے پہچانے گئے۔
آنند بخشی گلوکاری کا شوق رکھتے تھے اور فلمی دنیا میں بطور گلوکار ہی اپنی شناخت بنانا چاہتے تھے۔ مگر قسمت دیکھیے کہ انھیں فلمی دنیا میں گیت نگار کی حیثیت سے شہرت اور مقبولیت ملی۔ آنند بخشی اپنے خواب کو پورا کرنے کے لیے 14 سال کی عمر میں گھر چھوڑ کر ممبئی آ گئے جہاں رائل انڈين نیوی میں دو سال تک کام کیا۔ لیکن ایک تنازع کی وجہ سے یہ نوکری چھوڑنی پڑی۔ تقسیم ہند کے بعد چند برس بھارتی فوج میں بھی ملازمت کی مگر پھر ان کی ملاقات مشہور اداکار بھگوان دادا سے ہوئی جنھوں نے اپنی ایک فلم ’’بھلا آدمی‘‘ کے لیے آنند بخشی سے گیت لکھوائے اور یوں ان کے فلمی کیریئر آغاز ہو گیا۔ ابتدائی سات برس تک انھیں بطور گیت نگار کوئی خاص کام یابی نہیں مل سکی مگر 1965 میں فلم ’’ جب جب پھول کھلے‘‘ ریلیز ہوئی تو اس کے لیے آنند بخشی کے لکھے ہوئے گیت’’پردیسیوں سے نہ انكھياں ملانا، یہ سماں سماں ہے یہ پیار کا، ایک تھا گل اور ایک تھی بلبل‘‘ سپر ہٹ ثابت ہوئے۔ اسی سال فلم ’’ہمالیہ کی گود میں‘‘ ریلیز ہوئی اور اس کا ایک گیت ’’چاند سی محبوبہ ہو میری کب ایسا میں نے سوچا تھا‘‘.. بھی بہت مقبول ہوا۔ اب آنند بخشی کو شناخت مل چکی تھی اور سال 1967 میں سنیل دت اور نوتن کی فلم ’’ملن‘‘ کے نغمات نے تو ہر طرف دھوم مچا دی۔ ’’ساون کا مہینہ پون کرے شور، یگ یگ تک ہم گیت ملن کے گاتے رہیں گے، رام کرے ایسا ہو جائے‘‘ جیسے سدا بہار نغمات نے بطور نغمہ نگار آنند بخشی کو شہرت کی نئی بلندیوں پر پہنچا دیا۔
آنند بخشی کے فلمی گیتوں نے اپنے وقت کے سپراسٹار راجیش کھنہ کو بھی لازوال شہرت دی تھی۔ انھوں نے فلم ’’آرادھنا‘‘ کے لیے گیت ’’میرے سپنوں کی رانی کب آئے گی تو‘‘ لکھا اور یہ راجیش کھنہ پر فلمایا گیا جو آج بھی اپنی شاعری اور موسیقی کی وجہ سے بہت شوق سے سنا جاتا ہے۔
گیت نگار آنند بخشی کو لگ بھگ 40 مرتبہ فلم فیئر ایوارڈ کے لیے نام زد کیا گیا اور چار مرتبہ وہ اس ایوارڈ کے حق دار قرار پائے۔ بخشی صاحب نے بطور گلوکار اپنا شوق پورا کرنے کے لیے ستر کی دہائی میں فلم موم کی گڑیا میں ’’میں ڈھونڈ رہا تھا سپنوں میں‘‘ اور ’’باغوں میں بہار آئی‘‘ جیسے گیت گائے تھے، جو کافی مقبول ہوئے۔
نغمہ نگار آنند بخشی کو آخری فلم فیئر ایوارڈ 1999 میں سبھاش گھئی کی فلم تال کے گیت ’عشق بنا کیا جینا یارا‘ پر دیا گیا تھا۔