اتوار, دسمبر 1, 2024
اشتہار

وہ عظیم خاتون ریاضی دان، جو سیاسی و مذہبی اختلاف کی بھینٹ چڑھ گئی

اشتہار

حیرت انگیز

یہ سنہ 415 عیسوی کا زمانہ ہے، عظیم رومی سلطنت رفتہ رفتہ اپنے زوال کی جانب بڑھ رہی ہے، سلطنت کے رومی صوبے کے شہر اسکندریہ کی گلیوں میں خوف اور بے یقینی کے سائے ہیں۔

صوبے کے گورنر اور مقامی بشپ (پادری) کے درمیان سیاسی اختلافات عروج پر ہیں، ایک دوسرے پر حساس نوعیت کے الزامات عائد کیے جارہے ہیں، اور اس کا نتیجہ مذہبی فسادات کی صورت میں نکل رہا ہے۔

اختیارات کے حصول کے لیے نظریاتی اختلاف سے شروع ہونے والا یہ جھگڑا، شہر کی ایک معروف شخصیت پر جادو ٹونے کے الزام پر ختم ہوا اور اس کا بھیانک نتیجہ اس شخصیت کی مشتعل مسلح پادریوں کے ہاتھوں بہیمانہ موت کی صورت میں نکلا۔

- Advertisement -

یہ شخصیت اس وقت کی ایک معروف فلسفی، مدبر اور استاد ہائپشیا تھی جو یہ مقام اور حیثیت حاصل کرنے والی اس دور کی واحد عورت تھی۔

ہائپشیا نے جو کچھ تحریر کیا وہ محفوظ نہ رہ سکا، چنانچہ اس کے شاگردوں اور ہم عصروں نے اس کے بارے میں جو لکھا، اس سے علم ہوتا ہے کہ وہ ایک اعلیٰ پائے کی ریاضی دان، ماہر نجوم، اسکالر اور فلسفی تھی۔

اس وقت یہ مقام کسی اور عورت کو حاصل نہ تھا، ہائپشیا نے اس وقت کے معاشرے کے مروجہ روایتی صنفی اصولوں سے بغاوت کر کے یہ مقام حاصل کیا تھا۔ اس کے نظریات اور سوچ اس وقت سے کہیں آگے کے تھے، اور ستم ظریفی دیکھیئے کہ اپنے نظریات اور علم ہی کی وجہ سے اسے ایسی دردناک موت نصیب ہوئی، کہ اس کے بعد علم و فنون کا مرکز شہر اسکندریہ بنجر ہوگیا۔


سنہ 355 (سے 360 کے درمیان) اسکندریہ میں، جو اس وقت رومی سلطنت کا اہم شہر اور علم و ادب اور تخلیقی سرگرمیوں کا مرکز تھا، یونانی ریاضی دان تھیان کے گھر ایک بچی نے آنکھ کھولی۔

تھیان ایک ریاضی دان اور ماہر نجوم تھا جبکہ اس کی بیوی ایک عام روایتی گھریلو عورت تھی، تاریخ اس کے نام سے بھی واقف نہیں۔

ہائپشیا تھیان کی اکلوتی اولاد تھی چنانچہ تھیان نے اسے نہایت ناز و نعم سے پالا اور خود اس کی تعلیم و تربیت کی۔ بلوغت کی عمر تک پہنچتے پہنچتے ہائپشیا ریاضی اور علم نجوم کی مہارت میں اپنے والد کو بھی پیچھے چھوڑ چکی تھی۔

اس کی ذہانت اور مختلف علوم پر مہارت نے جلد ہی اسے شہر میں مقبول کردیا، اور بالآخر وہ شہر کی سب سے بڑی درسگاہ کی سربراہ بنا دی گئی۔ وہ اس عہدے تک پہنچنے والی واحد عورت تھی۔

بعد ازاں وہ شہر کی شوریٰ کی رکن بھی رہی۔

وہ درسگاہ جس نے دنیا کی دانشورانہ تاریخ کا تعین کیا

اس عظیم درسگاہ میں دوران تدریس ہائپشیا نے نئے انداز سے تعلیم دینا شروع کی۔ اس نے اس وقت استعمال ہونے والے سائنسی آلات و اصولوں میں جدت پیدا کی، ریاضی کی تقسیم مرکب (لانگ ڈویژن) کے لیے مؤثر طریقہ تیار کیا اور جدید اصولوں پر وضع کردہ ریاضی کی کئی کتابیں لکھیں۔

تاہم مؤرخین کا ماننا ہے کہ علمی و ادبی طور پر ہائپشیا کی سب سے بڑی خدمت اس کا انداز تدریس تھا۔

وہ فلسفہ جس کی تعلیم ہائپشیا نے دی، ارسطو، افلاطون، پلوٹینس اور فیثاغورث کے فلسفیانہ ورثے سے اخذ شدہ تھا۔ ان نظریات نے باہم ایک مکتبہ فکر تشکیل دیا جس کو نو افلاطونیت یا نیو پلیٹنزم کہا جاتا ہے۔

اس کے ماننے والے مفکرین کے لیے ریاضی ایک روحانی پہلو کی حامل تھی، جو چار شاخوں میں منقسم تھی، یعنی علم اعداد یا ریاضی، جیومیٹری، فلکیات اور موسیقی۔

ان مضامین کا مطالعہ صرف اس لیے نہیں کیا جاتا تھا کہ انہیں پڑھا جائے اور ان کا عملی استعمال کیا جائے، بلکہ ان مضامین نے اس عقیدے کی تصدیق کی تھی کہ اعداد دراصل کائنات کی مقدس زبان ہیں۔

الجبری فارمولوں اور ہندسی اشکال کے نمونوں، سیاروں کے مداروں، اور موسیقی کی آوازوں کے ہم آہنگ وقفوں میں ان مفکرین نے ایک عقلی کائناتی قوت کو روبہ عمل دیکھا۔

طلبا اس منظم دنیا پہ غور و فکر کرتے اور ایک اعلیٰ وحدانی قوت کے ساتھ جڑنے اور اسے جاننے کی کوشش کرتے۔

دنیا کے دور دراز حصوں سے یہودی اور عیسائی مذہب کے ماننے والے طلبا، اور وہ بھی جو کسی مذہب کے پیروکار نہیں تھے، اس درسگاہ میں آتے اور یہاں علم کے موتیوں اور ہائپشیا کی دانشورانہ صحبت سے فیض یاب ہوتے۔

ہائپشیا اس وقت کسی مذہب کی ماننے والی نہیں تھی، اور نہ وہ کسی دیوتا کی عبادت کرتی تھی۔ اس کے خیالات مختلف مذہبی نکتہ نظر کا مجموعہ تھے، چنانچہ کٹر مذہبی افراد اسے ملحد قرار دیتے تھے۔

اس نے وہاں ایک غیر جانبدار اور مذہبی ہم آہنگی رکھنے والا ماحول پروان چڑھایا تھا جہاں سب ایک دوسرے کے مذہب، نظریات اور خیالات کا احترام کرتے، اور نہایت سکون سے رہتے۔

دوسری طرف درسگاہ سے باہر شہر میں مذہبی و سیاسی رسہ کشی عروج پر تھی، سلطنت میں حال ہی میں عیسائیت کو سرکاری مذہب کا درجہ دیا گیا تھا۔

شہر کے سیاسی حالات

سنہ 415 عیسوی میں شہر کا مقامی بشپ سرل اپنے عہدے پر براجمان ہوتے ہی اپنے اختیارات کے ذریعے سیاسی طاقت حاصل کرتا جارہا تھا۔ وہ ایک کٹر مذہبی بشپ تھا چنانچہ اس نے عیسائی پادریوں کی باقاعدہ ملیشیا تیار کرلی اور انہیں یہودی آبادیوں اور ایسے مقامات پر حملے کرنے کا حکم دے دیا جہاں کسی مذہب کے نہ ماننے والے یا معتدل خیالات کے حامل افراد اپنی رسومات انجام دیتے تھے۔

بشپ سرل کے اپنے اختیارات سے تجاوز کی کوششیں صوبے کے گورنر اوریسٹس کے عہدے کے لیے خطرے کی گھنٹی تھی۔ اوریسٹس معتدل خیالات رکھنے والا شخص تھا تاہم سرل مذہبی انتہا پسندی کو فروغ دے رہا تھا اور اس کی طاقت میں اضافہ ہوتا جارہا تھا۔

عام لوگ بھی دو حصوں میں تقسیم دکھائی دیتے تھے۔

ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے دونوں جانب سے اب تک کئی انتہا پسندانہ اقدام اٹھائے جا چکے تھے، ایک بار بشپ نے گورنر کے قتل کے ارادے سے ایک راہب کو اس کے پیچھے روانہ کیا، گورنر اس وقت ایک عوامی تقریب میں شرکت کے لیے جارہا تھا۔

گورنر کے محافظوں اور حامیوں نے اس راہب کا ارادہ جان کر اسے پکڑ لیا جس کے بعد گورنر کی ہدایت پر اسے مجمعے نے تشدد کا نشانہ بنایا، بعد ازاں اس راہب کی موت واقع ہوگئی۔

سرل نے اس راہب پر لگائے گئے تمام الزامات سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ گورنر نے اپنے بغض میں اس پر تشدد کروایا۔ کہا جاتا ہے کہ سرل نے اس راہب کو ایک عظیم مقصد اور اپنے نظریات کے لیے جان دینے والا شہید قرار دیا جس کے بعد اس کی آخری آرام گاہ مقدس مقام میں بدل گئی۔

اس اقدام نے گورنر اور اس کے حامیوں میں مزید بے چینی پیدا کردی۔

ہائپشیا اس جھگڑے میں کیونکر شامل ہوئی؟

اس وقت ہائپشیا شہر میں ایک غیر جانبدار، مدبر اور ساتھ ہی با اثر شخصیت کے طور پر جانی جاتی تھی، اس کے کئی شاگرد اعلیٰ گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے اور اب ان میں سے اکثر مختلف حکومتی عہدوں پر براجمان تھے۔

گورنر ہائپشیا سے ملا اور اس سے مشورہ طلب کیا، ہائپشیا نے اسے صبر اور تحمل سے کام لینے کی ہدایت کی۔

بعض مؤرخین کے مطابق ہائپشیا نے گورنر کو اپنے مؤقف پر سختی سے ڈٹے رہنے کی ہدایت کی جس سے گورنر کو شہ ملی، ورنہ وہ سرل سے مذکرات کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ شہر کی ایک نمایاں شخصیت اور اس کے ذریعے اعلیٰ طبقے کی حمایت کے بعد گورنر نے مصالحت کا ہر ارادہ مؤخر کردیا۔

اس دوران کئی بار دونوں کے آدمی آپس میں گتھم گتھا بھی ہوئے جن میں ہلاکتیں بھی ہوئیں۔

ایک دن ایسے ہی ایک مسلح ٹکراؤ میں جب پادریوں کی ملیشیا نے گورنر کے قافلے پر حملہ کیا، تو گورنر شدید زخمی ہوگیا، گورنر کے آدمیوں کے تشدد سے ایک اور راہب ہلاک ہوا۔

چونکہ شہر میں کچھ روز قبل گورنر اور ہائپشیا کی ملاقات کی بازگشت تھی تو اس بار سرل نے ہائپشیا کو بھی اس جھگڑے میں شامل کرلیا۔ سرل نے اسے حالیہ واقعے کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے الزام عائد کیا کہ ہائپشیا جادو گرنی ہے اور اس نے جادو ٹونے کے ذریعے گورنر کو عیسائیت سے متنفر کردیا ہے۔

اب شہر میں ہائپشیا کے خلاف بھی نفرت کی آگ بھڑکائی جانے لگی، اور پھر وہ دن آ پہنچا جس دن وحشت و بربریت کی خونی تاریخ رقم ہوئی۔

سنہ 415 عیسوی میں ایک روز جب ہائپشیا اپنے رتھ پر شہر کے اندر سفر کر رہی تھی، جنونی مسلح پادریوں نے اس کا گھیراؤ کرلیا۔ اسے رتھ سے گھسیٹ کر قریبی چرچ میں لے جایا گیا اور مذہبی جنونیوں نے بہیمانہ تشدد کر کے اسے ہلاک کردیا۔

مؤرخین کا کہنا ہے کہ اس کی بے حرمتی بھی کی گئی جبکہ لاش کو کئی ٹکڑوں میں تقسیم کر کے جلا دیا گیا۔

ہائپشیا کی دردناک اور بہیمانہ موت اسکندریہ کی سیاست کا ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوئی، گورنر اوریسٹس نے دلبرداشتہ ہو کر اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا اور شہر چھوڑ کر چلا گیا۔

شہر کی تخلیقی و کشادگی کی فضا پر بے یقینی کے سائے چھانے لگے تو ہائپشیا کی درسگاہ بھی آہستہ آہستہ خالی ہونے لگی، مختلف شہروں سے وہاں آئے ہوئے یونانی و رومی اسکالرز شہر چھوڑ کر جانے لگے اور جلد ہی شہر اسکندریہ جو علم و ادب کا گہوارہ تھا، اپنی حیثیت کھو بیٹھا۔

مؤرخین کا کہنا ہے کہ اقتدار اور سیاست پر مبنی اس جھگڑے میں ہائپشیا جیسی دانشور، فلسفی اور استاد کی موت، اور وہ بھی ایسی بہیمانہ موت عظیم رومی سلطنت کی تاریخ کا وہ سیاہ باب ہے، جس نے اس عظیم الشان سلطنت کی تخلیقی اور دانشورانہ تاریخ کو گہنا دیا ہے۔


اس مضمون کی تیاری کے لیے مندرجہ ذیل ذرائع سے مدد لی گئی:

Britannica.com

Greekreporter.com

National Geographic / History and Culture

تصاویر بشکریہ:

TED-Ed

Comments

اہم ترین

مزید خبریں