عرب دنیا اور خاص طور پر ہزاروں سال پہلے کا مصر جداگانہ اور بھرپور تہذیب و ثقافت کا حامل رہا ہے جس کا لوک ادب بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔ لوک کہانیاں گویا دھرتی کے سینے سے پیدا ہوتی ہیں۔ اور نگری نگری پھرتے مسافر انھیں آگے پہنچاتے ہیں۔ یہ اس دور کی بات ہے جب آج کی طرح ذرایع ابلاغ اور طرح طرح کے وسائل انسان کو میسر نہ تھے۔ ہر دور کا لوک ادب اور داستانیں زیادہ تر کوئی پیغام پہنچانے کا ذریعہ بنی ہیں اور یہ انسان کو سیدھے راستے پر چلتے ہوئے برائی سے دور رہنے کی تلقین کرتی ہیں۔ یہ لوک کہانیاں زندگی کی تلخ و شیریں حقیقتوں کے بطن سے پھوٹتی ہیں۔
خیر اور شر کی جنگ، سچ اور جھوٹ کا بیان ہمیشہ سے دنیا کے انسانوں کا موضوع رہا ہے۔ یہ ایک ایسی ہی خوب صورت لوک داستان ہے جس میں ہمارے لیے سبق پوشیدہ ہے۔
یہ جھوٹ اور سچ کی کہانی ہے۔ جھوٹ نے ایک مرتبہ اپنے بھائی سچ کو ایک جال میں پھنسانا چاہا اور اس برے ارادے کی تکمیل کے لیے اس نے اپنا خنجر اپنے بھائی سچ کے پاس امانتاً چھوڑ دیا۔ پھر جھوٹ نے موقع دیکھ کر وہ خنجر چرا لیا اور اپنے بھائی (سچ) کے پاس گیا اور اس سے خنجر طلب کیا تو سچ نے اس کو خنجر کے گم ہوجانے کا بتاتے ہوئے اپنے بھائی (جھوٹ) سے معافی مانگی۔ لیکن جھوٹ نے اس کا عذر قبول نہیں کیا اور دیوتاؤں سے شکایت کی۔ اور دعویٰ کیا کہ اس کا خنجر بہت بڑا ہے، پہاڑ کی اونچائی تک اور اس کی مٹھی ایک درخت کی بلندی تک ہے۔ تو دیوتاؤں نے جھوٹ کو خنجر کے معاوضہ یا بدلہ لینے کی تجویز دی۔ جھوٹ نے اپنے بھائی (سچ) کو اندھا کرنے اور اپنے گھر پر ایک اندھا دربان مقرر کرنے کا کہا۔
ایک مقررہ مدت تک سچ اپنے بھائی (جھوٹ) کے دروازے پر پہرے دار کے طور پر کھڑا رہا۔ لیکن جھوٹ نے اس میں صبر و تحمل اور استقامت دیکھی تو بہت برہم ہوا۔ وہ اس کی خوبی سے حسد کرنے لگا تھا۔ اس نے اپنے بھائی کو قتل کرنے کا فیصلہ کیا۔ اپنے دو غلاموں کو حکم دیا کہ اسے بھوکے شیر کے پاس پھینک دیں تاکہ وہ اسے کھا جائے۔ لیکن سچ کو غلام پسند کرتے تھے اور انھوں نے جھوٹ کے حکم پر عمل نہ کیا۔ بلکہ اسے جنگل میں چھوڑ کر آگئے اور جھوٹ کو بتایا کہ شیر اسے کھا گیا ہے۔
سچ جو جنگل میں اکیلا رہ گیا، اسے ایک دن ایک خوبصورت عورت نے دیکھا اور محبت میں گرفتار ہوگئی اور سچ سے شادی کر لی۔ تاہم لوگوں کو خبر نہ ہونے دی بلکہ سچ کو الگ مقام پر رہنے کا پابند کردیا۔ ان کے یہاں ایک صحت مند اور ذہین بیٹا پیدا ہوا، وہ بہادر اور ذہین شہسوار بنا۔ جب وہ بڑا ہوا تو اس نے اپنی ماں سے اپنے باپ کے بارے میں پوچھا۔ اس کی ماں نے بتایا کہ اس کا والد تو وہ اندھا دربان ہے جس کے بارے میں تم نے سن رکھا ہے۔ جب اسے اپنے باپ کی کہانی سمجھ آئی تو اس نے بدلہ لینے کا فیصلہ کیا، چنانچہ اس نے ایک بیل خرید لیا۔ اور اسے اپنے چچا (جھوٹ) کے چرواہے میں سے ایک کو دے دیا، تاکہ جھوٹ کی بھیڑ بکریوں کے درمیان ایک معمولی رقم کے عوض اس کی پرورش ہو، جب تک کہ چچا (جھوٹ) جو کہیں گیا ہے، اپنے سفر سے واپس آجائے۔
چونکہ بیل بڑا اور خوبصورت تھا تو جب جھوٹ نے بڑے بیل کو دیکھا تو اسے بہت اچھا لگا، کھانے کے لئے اس نے بیل کو ذبح کر دیا۔ جب سچ کے بیٹے کو اس کا علم ہوا تو اس نے اپنے دیوتاؤں سے شکایت کی اور ان سے کہا: میرے بیل کی طرح کوئی بیل نہیں ہے۔ اس کے سینگ مشرق اور مغرب کے پہاڑ تک پہنچ جاتے تھے۔ دیوتاؤں نے اس پر مبالغہ آرائی اور جھوٹ بولنے کا الزام لگایا، تو سچ کے بیٹے نے دیوتاؤں سے کہا: کیا تم نے پہلے ایک بڑا خنجر دیکھا ہے جو پہاڑ کی اونچائی تک اور اس کی مٹھی ایک درخت کی بلندی تک ہو۔ اور اس نے یوں اپنے چچا (جھوٹ) کو بے نقاب کر دیا۔ اور دیوتاؤں سے عدالت قائم کرنے کی گزارش کی۔ دیوتاؤں کے حکم پر جھوٹ کو سو کوڑے مارے گئے۔ وہ شدید زخمی ہوگیا۔ پھر اس کو اندھا کر دیا گیا اور یہ حکم دیا کہ اب وہ اپنے بھائی (سچ) کا دربان بن جائے۔
حقیقت یہی ہے کہ جھوٹ ہمیشہ ذلت اٹھائے گا اور وہ سچ پر غالب نہیں آسکتا۔