جمعرات, دسمبر 26, 2024
اشتہار

ایک ارب سال پرانی چٹانوں کے تجزیے نے ماہرین حیاتیات کو حیران کر دیا

اشتہار

حیرت انگیز

آسٹریلیا میں ایک ارب سال پرانی چٹانوں کے تجزیے نے ماہرین حیاتیات کو اس وقت حیران کر دیا جب انھوں نے وہاں قدیم جان داروں کی ایک ’گم شدہ دنیا‘ دریافت کر لی۔

تفصیلات کے مطابق شمالی آسٹریلیا میں سائنس دانوں نے ایک ارب سال پرانی چٹانوں میں قدیم جان داروں کی ایک ’گم شدہ دنیا‘ دریافت کی ہے جس کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ اس دریافت سے انسانوں کے ابتدائی آباؤ اجداد کے بارے میں دنیا کے فہم میں تبدیلی آ سکتی ہے۔

محققین نے ان چٹانوں میں پروٹوسٹیرول بائیوٹا (Protosterol Biota) نامی ایک خوردبینی مخلوق ڈھونڈ لی ہے، یہ حیاتیات کے ایک خاندان کا حصہ ہے جسے یوکیریوٹس (eukaryotes) کہا جاتا ہے اور یہ تقریباً 1.6 ارب سال پہلے زمین کی آبی گزرگاہوں میں رہتی تھی۔

- Advertisement -

یوکیریوٹس کی خلوی ساخت بہت پیچیدہ ہوتی ہے جس میں مائٹوکونڈریا (یعنی خلیے کا پاور ہاؤس)، اور ایک مرکزہ (یعنی اس کا کنٹرول اور معلوماتی مرکز) شامل ہوتے ہیں۔ یوکیریوٹس کی جدید شکلوں میں فنگس، پودے، جانور اور یک خلوی جان دار (جیسا کہ امیبا) شامل ہیں۔

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ انسان اور دیگر تمام نیوکلیئس (مرکزے) والی مخلوقات اپنا آبائی شجرہ نسب مشترکہ آخری یوکیریوٹک آبا (LECA) تک لے جا سکتے ہیں جو 1.2 ارب سال پہلے رہتے تھے۔

لیکن اب ان کا کہنا ہے کہ ’’نئی دریافتیں ہمارے اپنے نسب کی قدیم ترین باقیات معلوم ہوتی ہیں جو لیکا سے بھی پہلے رہتی تھیں۔‘‘ آسٹریلین نیشنل یونیورسٹی (ANU) میں پی ایچ ڈی مکمل کرنے والے اور اب جرمنی کی بریمن یونیورسٹی میں مقیم بینجمن نیٹرشیم کا کہنا ہے کہ ’’یہ قدیم مخلوق پوری دنیا کے سمندری ماحولیاتی نظاموں میں وافر تھی اور شاید اسی نے زمین کی تاریخ کے بیش تر حصے کے لیے ماحولیاتی نظام کی صورت گری کی۔‘‘

پروٹوسٹیرول بائیوٹا کی یہ دریافت اے این یو کے محققین کی 10 سال کی محنت کا نتیجہ ہے، اور یہ تحقیقی مقالہ جمعرات کو جریدے نیچر میں شائع ہوا۔

بینجمن نیٹرشیم کے ساتھ اس دریافت میں حصہ لینے والے محقق پروفیسر جوخن بروکس نے کہا کہ یہ پروٹوسٹیرول بائیوٹا بیکٹیریا سے زیادہ پیچیدہ اور ممکنہ طور پر بڑا ہے، تاہم یہ معلوم نہیں ہو سکا ہے کہ وہ کیسا نظر آتا ہے۔ انھوں نے کہا ’’ہمارا خیال ہے کہ یہ زمین کے پہلے شکاری تھی، یعنی شکاری بیکٹیریا۔

یہ چربی والے فوسل کے مالیکیولز آسٹریلیا کے شمالی علاقہ جات کے قریب سمندر کی تہہ میں ایک چٹان میں دریافت ہوئے تھے، جس پر آسٹریلیا، فرانس، جرمنی اور امریکی محققین نے تحقیق کی۔ محققین نے پایا کہ مالیکیولز ایک بنیادی کیمیائی ساخت کے حامل تھے، جو ابتدائی پیچیدہ مخلوقات کے وجود کی طرف اشارہ کرتے ہیں، جو LECA سے پہلے وجود میں آئے تھے اور اس کے بعد سے معدوم ہو گئے تھے۔

بروکس نے کہا کہ یہ مخلوق شاید تقریباً 1.6 ارب سال سے لے کر 800 ملین سال پہلے تک پروان چڑھی تھیں۔ زمین کی ارتقائی ٹائم لائن میں اس دور کے اختتام کو ٹونین ٹرانسفارمیشن کے نام سے جانا جاتا ہے، جب زیادہ ترقی یافتہ جان دار، جیسا کہ فنگس اور کائی نے پنپنا شروع کر دیا۔ لیکن یہ بالکل معلوم نہیں ہے کہ پروٹوسٹیرول بائیوٹا کب معدوم ہوئی۔

بروکس کے مطابق ٹونین (Tonian) ٹرانسفارمیشن ہمارے سیارے کی تاریخ کے سب سے گہرے ماحولیاتی موڑ میں سے ایک ہے۔ جس طرح ڈائنوسار کو معدوم ہونا پڑا تاکہ ہمارے ممالیہ جانوروں کے اجداد بڑے اور بکثرت بن سکیں، شاید پروٹوسٹیرول بائیوٹا کو جدید یوکریوٹس کے لیے جگہ بنانے کے لیے ایک ارب سال پہلے غائب ہونا پڑا۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں