کراچی: وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی حکومت نے 2010 میں این ایف سی دے کر اتفاق رائے کو فروغ دیا، 2015 میں ایک اور این ایف سی ایوارڈ آنا چاہیے تھا۔
تفصیلات کے مطابق آج وزیر اعلیٰ سندھ سے ڈیموکریسی رپورٹنگ انٹرنیشنل پالیمنٹری وفد نے ملاقات کی، جس میں کے پی کے، پنجاب اور بلوچستان کے 16 ایم پی ایز شریک ہوئے، مراد علی شاہ نے وفد کو صوفیوں کی سرزمین پر خوش آمدید کہا۔
وزیر اعلیٰ نے بتایا کہ دیہی علاقوں میں بی آئی ایس پی کا بہت فائدہ ہوا، 25 ایکڑ زمین خواتین کو دی گئی، خواتین کو مزید مستحکم کرنا چاہتے ہیں، سیاحت کے فروغ کے لیے بھی کام کر رہے ہیں۔
انھوں نے کہا قلندر شہباز کے مزار کا کام جاری ہے، مزار کے سونے کا دروازہ شہید بھٹو نے لگوایا تھا، سونے کا گبند شہید بے نظیر بھٹو نے لگوایا، اب مزار کی توسیع چاہتے ہیں لیکن مزار کے قریب رہنے والے لوگوں کو ہٹانا ایک مسئلہ ہے، میں وہاں کے لوگوں کو ناراض نہیں کرنا چاہتا۔
دریں اثنا، وزیر اعلیٰ سندھ سے مختلف اہم معاملات سوالات کیے گئے، پوچھا گیا پختونوں کو کراچی میں تحفظ کیوں نہیں رہا؟ انھوں نے جواب دیا کہ سندھ وہ صوبہ ہے جو جہاں سے بھی آیا یہاں ضم ہوگیا، میں سید ہوں اور باہر سے ہم لوگ آئے تھے، گزشتہ اسمبلی میں ہمارے پختون ایم پی اے اختر جدون لیبر منسٹر تھے، ہم سندھ میں ہر آنے والے کو محبت سے رکھتے ہیں۔
این ایف سی کے حوالے سے انھوں نے کہا میں این ایف سی کا ممبر ہوں، کسی صوبے نے فاٹا کی ڈیولپمنٹ کے لیے فنڈز نہیں دیے، 2010 کے این ایف سی ایوارڈ کے بعد 18 ویں ترمیم آئی، ہم چاہتے ہیں وفاق اپنے حصے سے فاٹا کو فنڈز دے، جب پیپلز پارٹی حکومت نے 2010 میں این ایف سی دیا تو پنجاب میں ن لیگ، سندھ اور بلوچستان میں پیپلز پارٹی، کے پی کے میں اے این پی کی حکومت تھی، پیپلز پارٹی نے اتفاق رائے کو فروغ دیا، 2015 میں ایک اور این ایف سی ایوارڈ آنا چاہیے تھا۔
وزیر اعلیٰ سے سوال کیا گیا کہ بلوچستان کو حصے کا پانی نہیں ملتا؟ انھوں نے کہا میں محکمہ آب پاشی کا منسٹر بھی رہا ہوں، بلوچستان کو گڈو اور سکھر بیراج سے حصے سے زیادہ پانی دیتے ہیں، سکھر بیراج میں ایک ٹیکنیکل مسئلہ ہے، اس میں پانی خاص سطح پر ہوتا ہے تب بلوچستان کی طرف جاتا ہے۔
مراد علی شاہ نے کہا کہ سندھ میں لیبر قوانین میں 17 ترامیم کی گئی ہیں، ہم نے ہیومن رائٹس ڈائریکٹوریٹ کو وزارت کا درجہ دیا۔
انھوں نے کہا صوبوں کی مختلف پارٹیز کے ایم پی ایز سے مل کر خوشی ہوئی، پارلیمنٹیرینز کا آپس میں انٹر ایکشن ہونا چاہیے، میں سندھ پارلیمنٹرین کی کرکٹ ٹیم کا کیپٹن تھا، پنجاب کے پارلیمنٹرینز سے کرکٹ میچ کراچی میں کھیلا ہوں، اس قسم کی ایکٹیویٹیز تمام صوبوں کے قانون ساز اداروں کے لیے اہم ہیں۔