ہفتہ, فروری 15, 2025
اشتہار

بالوں میں تیل لگانا مفید ہے یا نقصان دہ؟ بیوٹیشنز کے مفید مشورے

اشتہار

حیرت انگیز

بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ بالوں میں تیل لگانے سے ان کی جڑیں مضبوط اور بال گھنے ہوجاتے ہیں لیکن اب اس طرح کی تحقیق بھی سامنے آرہی ہیں کہ یہ عمل بالوں کیلیے نقصان دہ ہے۔

اس حوالے سے اے آر وائی ڈیجیٹل کے پروگرام گڈ مارننگ پاکستان میں ماہر بیوٹیشنز نے ناظرین کو اپنے مفید مشوروں اور قیمتی رائے سے آگاہ کیا۔

پروگرام میں موجود معروف ہربلسٹ ڈاکٹر بلقیس، بینش پرویز ڈاکٹر حنا صدیقی اور شرمین علی نے بالوں کی صحت اور اور ان کی نشونما سے متعلق تفصیلی گفتگو کی۔

بینش پرویز نے کہا کہ بالوں میں تیل لگانے سے پرہیز نہیں کرنا چاہیے البتہ 12 یا 14 گھنٹوں تیل لگے رہنا نقصان کا باعث ہوسکتا ہے، لیکن جو لوگ تیل لگانے کو منع کرتے وہ میرے جیسے ہیئر ڈریسرز اور سیلون والے ہیں کیونکہ جب ہم کسی خاتون کے بالوں کو رنگتے ہیں اور وہ دو دن بعد بالوں میں تیل لگالے تو ہماری ساری محنت ضائع ہوجائے گی کیونکہ تیل لگانے سے ساری ٹوننگ بہہ جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ حقیقت یہی ہے کہ بالوں کی نشونما اور ان کی صحت کیلیے تیل لگانا بہت ضروری ہے لیکن اس کا دورانیہ چند گھنٹوں سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے۔

اس موقع پر ڈاکٹر بلقیس نے بتایا کہ وہ لوگ جن کی جلد ہی آئیلی ہوتی ہے ان لوگوں کیلیے تیل لگانا نقصان کا باعث بن سکتا ہے، تیل صرف وہی لوگ لگا سکتے ہیں جن کے سر کی جلد خشک ہوتی ہے یا اس میں خشکی (ڈینڈرف) آجاتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سر میں تیل لگانے کے تقریباً آدھا گھنٹہ یا زیادہ سے زیادہ ایک گھنٹے بعد بالوں کو اچھی طرح کسی بھی شیمپو سے دھولیں اگر ساری رات لگا کر رکھیں گے تو نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔

اگر آپ کے بال جھڑ رہے ہوں تو زیادہ دیر تیل لگانا نہیں چاہیے کیونکہ یہ تیل سر کے قدرتی نکلنے والے تیل کے ساتھ مل کر انہیں اور زیادہ چپچپا کر سکتا ہے اور سونے کی صورت میں تکیوں اور بستروں میں جمی دھول اور مٹی انہیں اپنی طرف کھینچتی ہے اور یہ بالوں کے گرنے کا سبب بن سکتا ہے۔ اس لیے ان مسائل سے بچنے کے لیے نہانے سے آدھا گھنٹہ پہلے تیل لگانا زیادہ مناسب رہتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوٹ : مندرجہ بالا تحریر معالج کی عمومی رائے پر مبنی ہے، کسی بھی مشورے نسخے یا دوا کو ایک مستند معالج کے مشورے کا متبادل نہ سمجھا جائے۔

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں