کراچی: سندھ حکومت کی جانب سے ایڈمنسٹریٹر اور ڈپٹی کمشنر ضلع شرقی لگائے جانے والے افسر کے خلاف انکشاف ہوا ہے کہ انھیں 6 کیسز میں نیب کی جانب سے تحقیقات کا سامنا ہے، نیز واٹر کمیشن کی جانب سے انھیں نا اہل بھی قرار دیا جا چکا ہے۔
اے آر وائی نیوز کے مطابق سندھ حکومت کی جانب سے من پسند افراد کی بطور ایڈمنسٹریٹر تعیناتی کی گئی ہے، ذرایع کا کہنا ہے کہ ضلع شرقی کراچی کے ایڈمنسٹریٹر اور ڈپٹی کمشنر کا عہدہ رکھنے والے محمد علی شاہ کو پنک ریزیڈنسی سمیت چھ کیسسز میں نیب کی تحقیقات کا سامنا ہے۔
ذرایع کا کہنا ہے کہ ڈی سی ایسٹ تعیناتی کے بعد محمد علی شاہ پر نیب کے زیر حراست حاجی آدم جھوکیو اور لینڈ مافیا تیمور ڈومکی کے جعل سازی سے الاٹمنٹ کے سسٹم کو پھر شروع کرنے کا بھی الزام ہے، جعلی الاٹمنٹ کے لیے ڈی ایم سی ایسٹ میں من پسند اے ڈی سی افسران اور مختیار کار بھی تعینات کر دیے گئے ہیں۔
ذرایع کا کہنا ہے کہ واٹر کمیشن کی جانب سے نا اہل قرار دیے گئے شخص کو ضلع شرقی کا ایڈمنسٹریٹر اور ڈپٹی کمشنر کا عہدہ دیا گیا ہے، واٹر کمیشن نے اس وقت کے ڈپٹی کمشنر ملیر محمد علی شاہ کو کے فور منصوبے میں تاخیر کا ذمے دار قرار دیا تھا، اور ان پر واٹر کمیشن شدید تحفظات کا اظہار کر چکا ہے۔
افتخار شلوانی کی منظوری پر کے ایم سی میں من پسند افسر کی تعیناتی
واٹر کمیشن نے مذکورہ افسر کو نا اہل قرار دے کر فوری طور پر ڈی سی کے عہدے سے ہٹائے جانے کی ہدایت کی تھی، واٹر کمیشن نے کہا تھا کہ ڈپٹی کمشنر ملیر محمد علی شاہ عوام کے مفاد میں نہیں ہیں، ضلعی انتظامیہ کی نااہلی کی وجہ سے منصوبے میں تاخیر ہوئی، رقم موجود ہونے کے باوجود کام نہیں کیا گیا۔
ذرایع کا کہنا ہے کہ واٹر کمیشن کی رپورٹ کے بعد اس افسر کی کہیں تعیناتی نہیں ہو سکتی، ایم کیو ایم سمیت دیگر جماعتوں نے بھی محمد علی شاہ کی ضلع شرقی میں بطور ایڈمنسٹریٹر تعیناتی پر سوالات اٹھائے تھے۔
ذرایع کا کہنا ہے کہ محمد علی شاہ کو بااثر شخصیات کی سفارش پر ایڈمنسٹریٹر ضلع شرقی تعینات کیا گیا، واٹر کمیشن کی رپورٹ کے بعد سندھ حکومت نے برخلاف جا کر 2 عہدے ایک نا اہل افسر کو دیے۔