ہفتہ, مئی 18, 2024
اشتہار

عرب دنیا کی تاریخِ گم گشتہ اور بغداد کا زریاب

اشتہار

حیرت انگیز

قبل از اسلام سرزمینِ عرب اور عربوں کی حالت، ان کا تمدن، اُس معاشرے میں علم و فنون کی صورتِ حال اور ظہورِ اسلام کے بعد انفرادی اور اجتماعی زندگی پر اثرات اور معاشرے میں ہر سطح پر تبدیلیوں کو غیر مسلم محققین اور مصنّفین نے بھی اپنی کتابوں کا موضوع بنایا ہے۔ امریکہ کے مائیکل ہیملٹن مورگن انہی میں سے ایک ہیں۔

وہ سیاسیات کے ماہر، محقق اور ادیب ہیں۔ عصرِ حاضر کے اِس مصنّف کی عرب معاشرت، مشہور مسلمان حکماء اور حکم رانوں کی تاریخ پر کتاب میں وہ گمشدہ ابواب شامل ہیں جو ایک عرصہ یورپ کے کتب خانوں میں طاقِ نسیاں پر دھرے رہے ہیں۔ اس کتاب کا ترجمہ بشمول اردو چار زبانوں میں کیا جاچکا ہے۔ یہاں مائیکل ہیملٹن مورگن کی اسی کتاب سے فنِ‌ موسیقی پر چند پارے نقل کررہے ہیں جو تاریخی معلومات پر مبنی ہیں۔ اس کا ترجمہ اور تلخیص ناصر فاروق نے کی ہے۔

"زریاب، نویں صدی کے بغداد کا معروف موسیقار، نے دنیا کی پہلی موسیقی کی درس گاہ قائم کی۔ وہ نہ صرف اعلٰی موسیقار تھا بلکہ انواع اقسام کے کھانوں، اور کپڑوں کی نت نئی تراش خراش کا ماہر بھی تھا۔ موسیقی کا ایک اور فارسی النسل ماہر ابو نصر الفارابی تھا، نویں صدی میں شام کے دربار سے تعلق رکھتا تھا۔

- Advertisement -

فارابی نے موسیقی پر پانچ مقالے تحریر کیے، موسیقی پر اُس کے مشاہداتی کلیات ان میں شامل تھے: انسان اور جانور، اپنی جبلتوں کے تحت وہ آوازیں نکالتے ہیں، جو جذبات ظاہر کرتی ہیں، احساسات واضح کرتی ہیں، یہ خوف اور خوشی میں تمیز کرتی ہیں۔ انسانی آواز میں اظہارات کی ایک دنیا بستی ہے۔ اداسی، محبت، غصہ، اور دیگر جذبات اور احساسات کے لیے اس آواز میں بڑا تنوع پایا جاتا ہے۔ آواز کی یہ تمام صورتیں سننے والے پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ اُس کے احساسات میں اتار چڑھاؤ کا سبب بنتی ہیں، اُسے تسکین پہنچاتی ہیں۔ الفارابی نے آواز کی پچ اور آٹھ سُروں کے سنگم کی درستی اور آہنگ پر تفصیل سے لکھا۔

بارہویں صدی کے مسلم عبقری الغزالی نے صوفیانہ ایمان اور عارفانہ موسیقی میں براہِ راست تعلق کی وضاحت کی: انسانی دل تک رسائی سمع نوازی کے بغیر ممکن نہیں۔ یہ دل کے حسن و قبح نمایاں کر دیتی ہے۔ موسیقی پر ان کُلیات کے ترجمے کیے گئے، اندلس اور سسلی سے انھوں نے شمالی یورپ کی راہ لی، صلیبی سپاہی اور دیگر ذرائع علم کی ترسیل کرتے رہے۔ گو اس میں صدیوں کے فاصلے بھی طے ہوئے۔ مؤرخ ایچ جی فارمر کے مطابق، مسلمانوں سے یورپ منتقل ہونے والا ایک اہم علم ‘موسیقی کے سُر تال’ ہیں۔ اطالوی نویں اور دسویں صدی میں مسلم موسیقی کے سُر تال استعمال کررہے تھے۔ اپنی کتاب Historical Facts for the Arabian Musical Influence میں وہ عربی اور اطالوی سُروں کا موازنہ کرتا ہے، فرق واضح کرتا ہے۔

قرون وسطٰی کے اندلس اور سسلی میں، مسلم شاعری اور موسیقی کئی مختلف شکلیں اختیار کرگئیں۔ موسیقی کی ایک اندلسی شکل کا نام ‘الموشحات’ تھا، یہ عرب میں بہت مقبول ہوئی، اور اسی سے موسیقی کی ایک نئی شاخ ‘زجل’ نکلی، جو قدیم روایتی نوعیت کی تھی۔

تیرہویں صدی میں، کاسٹل اور لیون کے عیسائی بادشاہ الفانسو نے شعراء سے چار سو مقدس مسیحی گیت لکھوائے، جن میں سے تین سو گیت مسلم موسیقی کی نقل اور مواد پر تیار کیے گئے تھے۔ کئی صدیوں بعد بھی شمالی اسپین کے عیسائی مسلم گیتوں سے مشابہ گیت گاتے رہے، جو ابتدا میں حضرت مریم کے لیے تھے، پھر بعد میں کسی بھی پاکباز خاتون کے لیے گائے جانے لگے۔ یہ مسیحی گیت گانے والے فرانس میں troubadours اور اٹلی میں trovatori کہلاتے تھے، ان کے نام ممکنہ طور پر عربی کے ‘طرب’ سے مشتق ہیں، جس کے معنی ‘وجد’ یا ‘سرمستی کے ہیں۔

محبوب کے لیے غزل کہنے کا عربی اسلوب یورپی ثقافت میں عام رواج پا گیا، غزل کی یہ شاعرانہ قسم یورپی ادب میں سرایت کر گئی۔ عورت سے آگہی اور شناسائی کے کئی نئے پہلو سامنے آئے۔ عورت کی تکریم کا تصور یورپی معاشرے میں متعارف ہوا۔ عموماً موسیقی کی یہ ترسیل پائرینیز آنے جانے والے مسافروں کے ذریعہ ہوئی، ان مسافروں میں Charlemagne بھی شامل تھا، اُس نے مسلم اندلس میں سات سال گزارے۔

موسیقی پر اکیسویں صدی کے مؤرخ ڈاکٹر رباح سعود کہتے ہیں کہ نہ صرف مسلم موسیقی کے کلیے اور سُر تال شمالی یورپ گئے بلکہ آٹھویں اور نویں صدی میں مسلمان فن کاروں نے اٹلی، فرانس، اور شمالی مسیحی اسپین میں موسیقی کے نت نئے آلات بھی متعارف کروائے۔ مسلم آلۂ موسیقی ‘اُد’ نے بتدریج یورپی گٹار کی صورت اپنائی۔ عربی ‘غایطہ’ اسکاٹش بیگ پائپ اور ہسپانوی پرتگالی gaita کہلایا۔ مسلم آلۂ موسیقی ‘قانون’ نے انگریزی کے harp اور جرمن کے zither کو پیدا کیا۔ فارسی کا ‘کمانچہ’ اور عربی کا ‘رباہ’ آگے چل کر وائلن بن گیا۔ مسلم ‘زورنا’، لکڑی کا آلہ موسیقی، Oboe کی شکل اختیار کر گیا۔ فارسی کے’سنتور’ کی شکل آگے چل کر یورپی ’کی بورڈ’ آلات موسیقی میں ڈھل گئی۔ پورے یورپ میں مسلم موسیقی کے سُروں نے طویل سفر کیا، اسپین میں بھی ان کی گونج سنائی دیتی رہی۔ محبت اور تہذیبوں کے ان گیتوں کے قالب بدل گئے لیکن کیتھولک فاتحین نے انھیں مٹنے نہیں دیا۔

ہسپانوی مسلمان یا تو دیس نکالا دیے گئے، یا جبراً عیسائی بنا دیے گئے، یا مار دیے گئے۔ یہ سب آبائی وطن میں در بہ در ہو گئے۔ ان میں سے کچھ جپسی خانہ بدوشوں کا روپ دھار گئے، جو آزاد اور محفوظ طبقہ تھا۔ ان جپسی مسلمانوں نے موسیقی کی ایک قسم ایجاد کی، جسے flamenco نام دیا گیا، جس کے بارے میں بیسویں صدی کے کیوبن ناول نگار Gabriel Cabrera Infante کا کہنا ہے کہ عربی کی اصطلاح ”فلاحین” سے درآمد شدہ ہے، جس کا مطلب خانہ بدوش کسان ہیں۔ اور مغرب میں مسلم موسیقی کی شکل جو زریاب سے منسوب ہے، اسپین، پرتگال، اور پورے یورپ تک محدود نہیں رہی۔ یہ ہسپانوی نو آباد کاروں کے ہمراہ مغرب لاطینی و شمالی امریکا کی جانب گئی۔ برازیل میں یہ ”سامبا” بن گئی، میکسیکو میں jarabe کہلائی، چلی میں la cueca کے عنوان سے پہچانی گئی، ارجنٹینا اور یوروگوائے میں elgato اور کیوبا میں la guajira پکاری گئی۔

ماہرینِ موسیقی نے یہ دعوٰی تک کیا ہے کہ افریقا سے شمالی امریکا لائے گئے مسلمان غلام جو حمد پڑھا کرتے تھے، اُس میں اندلسی سُروں کی بازگشت سنائی دیتی تھی۔”

اسی باب میں آگے چل کر مورگن لکھتے ہیں، "مسلم دنیا میں اور بہت سے یادگار قصے اور ناقابلِ فراموش داستانیں ہیں، جن سے ادب آراستہ ہے۔ یہ ادب دیگر دنیا میں بھی مقبول ہوا ہے۔ یہ شاعری اور نثر دونوں صورتوں میں آگے بڑھا ہے۔ شاعری کی ایک عربی شکل قصیدہ بھی ہے، جس کا ہندوستان کے مغل درباروں میں کافی رواج ہوا۔ تاہم عربی شاعری میں کثرت سے علامتوں اور استعاروں کے استعمال نے منتقلی دشوار بنائی۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں