سرچ انجن گوگل کے بعد دنیا بھر میں تیزی سے مقبول ہونے والا آرٹیفیشل انٹیلیجنس پر مبنی پلیٹ فارم ’چیٹ جی پی ٹی‘ لوگوں کی زندگی کا اہم جز بنتا جارہا ہے جس میں صحت سمیت تمام موضوعات سے متعلق معلومات حاصل کی جاسکتی ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایک عام انسان اپنی جسمانی کیفیت بتا کر اس سے کوئی مشورہ لے سکتا ہے؟ بظاہر تو یہ ایک عام سی بات ہے لیکن صحت کے معاملے میں کسی مستند ڈاکٹر کے مشورے پر ہی عمل کیا جانا ضروری ہے۔
اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں پبلک ہیلتھ ایکسپرٹ ڈاکٹر محمد سلیمان اوٹھو نے ناظرین کو اس قسم کی معلومات سے متعلق مکمل آگاہی فراہم کی۔
انہوں نے کہا کہ میڈیسن کمپنیوں کی جانب سے ان کی تیار کردہ ادویات اور ان کی افادیت سے متعلق تمام تر تفصیلات پر مبنی کتاب شائع کی جاتی ہے لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کوئی بھی شخص اس کتاب کو پڑھ کر اپنے یا کسی اور کیلئے کوئی دوا تجویز کرلے۔
ڈاکٹر محمد سلیمان اوٹھو کا کہنا تھا کہ یہ بات گوگل یا چیٹ جی پی ٹی پر بھی لاگو ہوتی ہے کہ وہاں سے ملنے والی معلومات پر عمل کرکے ازخود کوئی دوا استعمال کرلی تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ اس کے نتائج بہتر نہیں ہوسکتے کیونکہ ہر مریض کی نوعیت مخلتف ہوتی ہے سب کی جسمانی کیفیت ایک جیسی نہیں ہوتی اور اس کا حتمی فیصلہ ایک تجربہ کار ڈاکٹر ہی کرسکتا ہے۔