تازہ ترین

پاکستانیوں نے دہشت گردوں کے ہاتھوں بہت نقصان اٹھایا، میتھیو ملر

ترجمان امریکی محکمہ خارجہ میتھیو ملر نے کہا ہے...

فیض حمید پر الزامات کی تحقیقات کیلیے انکوائری کمیٹی قائم

اسلام آباد: سابق ڈائریکٹر جنرل انٹر سروسز انٹلیجنس (آئی...

افغانستان سے دراندازی کی کوشش میں 7 دہشتگرد مارے گئے

راولپنڈی: اسپن کئی میں پاک افغان بارڈر سے دراندازی...

‘ سعودی وفد کا دورہ: پاکستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری ہوگی’

اسلام آباد : وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے...

پاکستان پر سفری پابندیاں برقرار

پولیو وائرس کی موجودگی کے باعث عالمی ادارہ صحت...

مٹّی سے بنا ‘اَرگِ بام’ ایک روز مٹّی میں مل گیا!

ایران کے جنوب مشرق میں‌ تاریخی شہر ‘بام’ کبھی ریشم اور حِنا کی پیداوار کے لیے مشہور تھا اور اسی شہر میں‌ مٹّی اور کچّی اینٹوں کا شہرہ آفاق قلعہ بھی موجود ہے جسے ‘ارگِ بام’ کہا جاتا ہے۔

یہ نقشِ کہن تہذیب و تمدن اور قدیم ثقافت کی عظیم یادگار ہی نہیں‌ بلکہ فنِ تعمیر میں ایجاد و اختراع، انسان کی کاری گری اور ہنر مندی کا بھی منہ بولتا ثبوت ہے۔

صدیوں پہلے معماروں نے اس قلعے کو بلندی پر تعمیر کیا تھا اور نیچے کی طرف قلعے کے اطراف بستی اور بازار بنائے تھے۔

اَرگ کا مطلب ہے نہایت مضبوط اور بام اس قلعے کے بلند مقام ہونے کی طرف اشارہ ہے۔ یعنی اونچائی پر ایک مضبوط عمارت۔

یہ شہر چھے مربع کلو میٹر پر پھیلا ہوا ہے جس کی دیواریں‌ 18 میٹر بلند تھیں۔ صدیوں‌ پہلے مخصوص مٹّی اور کچّی اینٹوں سے تعمیر کردہ یہ قلعہ اور شہر واقعی بہت مضبوط تھا جس نے ہزار ہا برسوں سے حالات اور موسم کے اتار چڑھاؤ اور سرد و گرم کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنا وجود قائم رکھا، لیکن 2003ء کے زلزلے میں زمیں بوس ہوگیا۔ آج یہ ثقافتی ورثہ مکمل بحالی اور توجہ کا منتظر ہے، لیکن یہاں دور تک مٹّی اور ملبا ہی دکھائی دیتا ہے۔

بام شہر کے اس زلزلے میں لگ بھگ ساٹھ ہزار افراد ہمیشہ کے لیے منوں مٹّی تلے جا سوئے تھے۔

ارگِ بام کو باقاعدہ اور منظّم طریقے سے بسایا اور بنایا گیا تھا۔ مذکورہ ناگہانی آفت سے قبل پہاڑی پر موجود فنِ تعمیر کا یہ شاہ کار قلعہ سیّاحوں کی توجہ کا مرکز تھا۔ اس کے ساتھ نیچے شہر کا نقشہ یہ تھاکہ وہاں ایک ہی صدر دروازہ تھا اور اسی سے تمام افراد اندر داخل ہوسکتے تھے۔

بام شہر ایران کے صوبہ کرمان کا حصّہ ہے جس میں‌ موجود یہ قلعہ قبلِ مسیح کی یادگار تھا اور ساتویں سے گیارہویں صدی میں‌ اسلامی عہد میں اس خطے کو تجارتی اعتبار سے بہت اہمیت حاصل ہوگئی تھی۔

2003ء کے زلزلے میں پہاڑی پر قائم قلعے کا بیش تر حصّہ بھی تباہ ہوا، لیکن نیچے موجود عمارتیں‌ تو واقعی مٹّی کا ڈھیر بن گئی تھیں۔

Comments

- Advertisement -