نئی دہلی: بھارتی مسخرہ اینکر ارنب گوسوامی کے کرتوتوں نے بھارتی قومی سلامتی کے ادارے کی عزت بھی ڈبو دی، گوسوامی کے چیٹ نے کئی راز فاش کر دیے۔
تفصیلات کے مطابق گوسوامی اور بھارتی براڈ کاسٹ آڈینس ریسرچ کونسل کے سربراہ پراتھو داس گپتا کے درمیان واٹس ایپ چیٹ ہوئی تھی، جس نے بھارتی حکومت کے اقدامات کا بھانڈا پھوڑ دیا۔
چیٹ کے مطابق ارنب گوسوامی کو بھارت میں اعلیٰ ترین سطح پر ہونے والے فیصلوں کا علم تھا، گوسوامی کے کرتوتوں نے بھارت میں اعلیٰ ترین سطح پر عسکری فیصلوں کا پول بھی کھول دیا، اس چیٹ نے بھارت میں قومی سلامتی کے ادارے اور فیصلہ سازی میں انتہائی غیر سنجیدگی بے نقاب کر دی ہے۔
بھارتی فیصلہ ساز ٹی آر پیز کے جنون میں مبتلا مسخرہ نما اینکر کے ہاتھوں میں کھیلتے رہے، چیٹ سے انکشاف ہوا کہ پلوامہ میں بھارت نے اپنے فوجی خود مروائے، الزام پاکستان پر لگایا، نریندر مودی 40 بھارتی فوجیوں کی لاشوں پر کھڑے ہو کر مگر مچھ کے آنسو بہاتے رہے۔
ارنب گوسوامی نہ صرف بالاکوٹ پر حملے بلکہ آرٹیکل 370 کے خاتمے سے بھی آگاہ تھا، گوسوامی ریٹنگ ایجنسی بی اے آر سی کے سربراہ کے ساتھ اپنے چینل کی ریٹنگ بڑھانے پر کام کرتا رہا، 23 فروری 2019 کو ارنب نے بی اے آر سی سربراہ کو پاکستان سے متعلق بڑی خبر کی پیشگی اطلاع دی، گوسوامی نے بتایا کہ پاکستان کے خلاف معمول سے بڑی کارروائی ہوگی۔
گوسوامی کو پتا تھا کہ کشمیر میں معمول سے ہٹ کر کچھ بڑا ہونے والا ہے، گوسوامی کے مطابق مودی حکومت پاکستان مخالف کارروائی سے عوام کو خوش کرنا چاہتی تھی، بالاکوٹ حملے کے بعدگوسوامی نے بی اے آر سی سربراہ کو بتایا مزید کارروائی ہوگی۔
پی ایم آفس سے لیک معلومات پرگوسوامی اپنے چینل پر سی این این کی عراق کوریج فالو کرنا چاہتا تھا، ارنب گوسوامی کی بھارتی قوم پرستی بھی درحقیقت صرف ٹی آر پیز حاصل کرنے کا بہانہ نکلی۔
واضح رہے کہ بھارتی پروفیسر اشوک سوائین پہلے ہی پلوامہ کو ڈراما قرار دے چکے ہیں، پروفیسر اشوک کے مطابق مودی نے پلوامہ میں وہی کیا جو اس نے 2002 میں گجرات میں کیا تھا، مودی نے ووٹ بٹورنے کے لیے پلوامہ ڈارما ہونے دیا۔
یاد رہے کہ ارنب گوسوامی کو 4 نومبر 2020 کو خاتون اور بیٹے کی خود کشی کے پس منظر میں گرفتار کیا گیا تھا، ارنب گوسوامی نے انٹیریئر ڈیزائنر کے 83 لاکھ روپے ادا کرنے تھے، گوسوامی نے گرفتاری کے دوران ایک خاتون افسر پر حملہ بھی کیا۔
دوسری طرف گوسوامی پکڑا گیا تو بھارتی حکومت اس کے لیے سرگرم ہو گئی، سپریم کورٹ نے بھی ساتھ دیا، بھارتی سپریم کورٹ بار کے صدر دشیانت دیو گوسوامی اس ترجیحی سلوک کو دیکھتے ہوئے مستعفی ہو گئے۔