برصغیر کے تہذیبی اور ثقافتی ورثے میں طوائفوں کے کردار کو بھی ایک خاص اہمیت دی جاتی ہے اور مشاہیر کی کتب میں اس پر کئی تحریریں پڑھنے کو ملتی ہیں۔ طوائفوں کی شان و شوکت انگریزوں کے ہندوستان پر قبضے تک برقرار رہی مگر بعد میں سماجی تبدیلیوں اور دوسرے عوامل کی وجہ سے وہ نہ صرف بے وقعت بلکہ بدنام ہوگئیں۔
ہندوستان میں طوائفوں کو ان کے فن، زبان و اردو ادب میں ان کی دل چسپی اور خاص طور پر ان کے ذوقِ شاعری کے سبب بڑا امتیاز حاصل تھا۔ وہ نوابوں اور شرفا کی تفریح طبع کا سامان کرنے کے ساتھ ایک طرح سے فن و ادب کو فروغ دینے کے لیے مشہور تھیں۔ اس حوالے سے لکھنؤ اپنے دور میں تہذیب و ثقافت اور فن کا بڑا مرکز رہا ہے جس سے متعلق ممتاز مؤرخ اور مصنّف ڈاکٹر مبارک علی کے مضمون سے یہ سطریں پیشِ خدمت ہیں۔
لکھنؤ کے نوابی عہد میں لکھنؤ کی طوائف تہذیب و تمدن کی علامت بن گئی تھی۔ لکھنؤ کے حکمراں اور امرا ان کی سرپرستی کرتے تھے جس کی وجہ سے یہ بے انتہا دولت مند ہو گئی تھیں۔
قیمتی جائیداد کے علاوہ ان کے پاس سونے چاندی کے زیورات، ہیرے موتی اور پُرتکلف ملبوسات کی کمی نہ تھی۔ محمد باقر شمس نے اپنی کتاب ’تاریخ لکھنؤ‘ میں طوائفوں کے بارے میں لکھا ہے کہ ’لکھنؤ کی طوائفیں تہذیب، سخن سنجی، حسن و جمال اور کمالِ فن میں مشہور تھیں۔ ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ ہر مشہور یا خاندانی طوائف صاحبِ جائیداد اور دولت مند تھی اس وجہ سے معمولی آدمی بھی ان کے یہاں جاتے تھے۔ ’بعض شعرا سے بھی ان کے روابط تھے، کیونکہ وہ خود شعر کہتی تھیں اور شعرا کی قدردان تھیں ۔ ۔ ۔ رئیس زادے پہلے سے اطلاع کر دیتے تھے کہ ہم فلاں دن، فلاں وقت آئیں گے۔ اس دن اگر کسی اور سے وعدہ نہ ہوا تو وہ کہتیں، ’زہے نصیب کہ سرکار کنیز کو سرفراز فرمائیں،‘ اور وہ جب تشریف لاتے تو سرو قد تعظیم کے لیے کھڑی ہو جاتیں اور کمر تک جھک کے سات سات تسلیمیں بجا لاتیں، اپنی جگہ سے ہٹ کے انہیں صدر مسند پر بٹھاتیں اور خود دوسری طرف فرش کے کونے پر بیٹھتیں۔
’پاندان اٹھا کے ان کے آگے رکھ دیا جاتا، وہ پان لگا کے خاصدان میں دونوں ہاتھوں پر رکھ کے پیش کرتیں اور اگر گانے کی فرمائش کی تو سازندے آتے اور جھک جھک کر تسلیمیں کر کے بیٹھ جاتے۔ گانا شروع ہوتا، تعریف پر اٹھ اٹھ کر تسلیمیں کرتیں۔ یہ گھنٹہ آدھ گھنٹہ کی صحبت ہوتی جس میں سیکڑوں روپیہ ان کو انعام میں مل جاتا۔ سرِ شام سے چوک میں ہجوم ہو جاتا اور سازوآہنگ کی آوازوں سے فضا گونج اٹھتی۔‘
صورت حال میں اس وقت تبدیلی آئی جب 1856 میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے اودھ کی ریاست کو ختم کر کے واجد علی شاہ کو جلاوطن کر دیا۔ اس کی وجہ سے لکھنؤ کی طوائفیں نہ صرف شاہی سرپرستی سے محروم ہو گئیں بلکہ جاگیردار اور تعلقہ دار بھی مالی طور پر دولت مند نہ رہے۔ اس کی وجہ سے طوائفوں کی شان و شوکت والی زندگی متاثر ہو گئی۔ پھر 1857 میں جب انگریزی حکومت کے خلاف بغاوت ہوئی اور حضرت محل نے لکھنؤ میں کمپنی کے خلاف محاذ قائم کیا تو طوائفوں نے بھی باغیوں کی مالی مدد کی۔ اس کی ایک وجہ حب الوطنی تو تھی ہی لیکن مادّی وجہ یہ تھی کہ وہ بھی حکومت کی پالیسی سے متاثر ہوئی تھیں۔
یہی سبب ہے کہ بغاوت کے خاتمے کے بعد حکومت نے ان کی جائیدادیں ضبط کر لیں، جس کی وجہ سے اُن کی سابقہ حیثیت ختم ہو گئی اور طوائفوں کا کوٹھا جو تہذیب و فنون لطیفہ کا مرکز تھا، اس کا خاتمہ ہو گیا۔