پیر, مئی 12, 2025
اشتہار

سب کچھ کھونے کے بعد بھی میں راضی بہ رضا ہوں!

اشتہار

حیرت انگیز

جنوری 1948ء میں ایبٹ آباد سے واپسی پر میں نے چند روز پھر راول پنڈی میں قیام کیا۔ اسی دوران پاکستان میں آزادی کے بعد عید میلادالنبی کی متبرک تقریب پہلی بار منائی گئی۔

خون کے دریاؤں کو پار کر کے اور عزیز و اقارب اور اپنے پیاروں کو مسخ شدہ نعشوں کی چھوٹی بڑی پہاڑیوں کو عبور کر کے مہاجرین کو سرزمین پاکستان میں آکر چند مہینے ہی ہوئے تھے۔ ایک نظریۂ حیات کے لیے اتنی بڑی قربانی دینے کے بعد جذبے میں فراوانی اور ایمان میں تازگی تھی اس لیے اللہ اور رسول کے نام پر حاصل کیے ہوئے وطن میں اس موقع پر عوام میں بڑا جوش اور جذبہ تھا۔

افواج پاکستان کے چھوٹے بڑے جلوس شہر کی سڑکوں اور بازاروں میں سے گزر رہے تھے۔ میں بھی جلوس دیکھنے کے لیے ایک جگہ کھڑا ہوگیا۔ میرے پاس ہی ایک سفید ریش بزرگ پھٹے پرانے کپڑے پہنے کھڑا تھا۔ جیسے ہی فوج کا ایک دستہ اللہ اکبر کے نعرے بلند کرتا اور درود و سلام پڑھتا ہوا پاس سے گزرا، اس کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے۔ یہ سماں دیکھ کر ایک شوخ نوجوان جو پاس ہی کھڑا تھا ان سے مخاطب ہو کر بولا ”بھائی صاحب، یہ تو خوشی کا موقع ہے۔ آپ روتے کیوں ہیں؟“ سفید ریش بزرگ نے امنڈتے ہوئے آنسوؤں کے سیلاب میں بہتے ہوئے جواب دیا: ”عزیز من، یہ رنج کے آنسو نہیں۔ یہ خوشی اور مسرت کے آنسو ہیں۔ ورنہ وحدہ لاشریک کی قسم۔ محمد رسول اللہ ﷺ کے اس غلام کے پاس رنج کے آنسو بہانے کے لیے کافی جواز ہے۔ بیٹا، تم یقین مانو کہ یہ ناچیز گناہ گار، جو آپ کے سامنے کھڑا ہے، بھِک منگا نہیں ہے۔ وہ ’چاندنی چوک‘ دہلی کا ایک خوش حال سوداگر تھا، لیکن اب اس کے پاس ان چیتھڑوں کے سوا کچھ نہیں، جو اس کی ستر پوشی کر رہے ہیں۔ اس کی دکان کو نذر آتش کر دیا گیا۔ اس کے جدی مکان کو ملیا میٹ کر دیا گیا۔ ساری عمر کی پونجی لوٹ لی گئی۔ اس کی گھر والی کو ظالموں نے اس کے سامنے قیمہ قیمہ کر ڈالا۔ اس کی جوان بیٹی کو اس کی آنکھوں کے سامنے پکڑ کر لے گئے۔ اس کے دودھ پیتے بچے کا جو حشر کیا اس کو بیان کرنے کی اس میں طاقت نہیں۔ عزیز من، میں ضرورت مند ہوں، مظلوم ہوں، اللہ کی اس وسیع دنیا میں تنہا اور بے یار ومددگار ہوں، لیکن باوجود اس کے میں خوش ہوں اور خوشی کے آنسو بہا رہا ہوں۔ یہ اس لیے کہ یہ سب کچھ کھونے کے بعد میں اپنی آنکھوں سے یہ روح پَرور منظر دیکھ رہا ہوں۔ اپنے کانوں سے سروَر دوعالم ﷺ پر درود و سلام سن رہا ہوں۔ الحمدللہ سب کچھ کھونے کے بعد میں راضی بہ رضا ہوں۔ میرا ایمان الحمدللہ سلامت ہے اور میں اپنے آپ کو خسارہ میں نہیں پاتا۔“

سوال کرنے والا شوخ نوجوان یہ سن کر والہانہ انداز میں اس عمر رسیدہ صاحب ایمان بزرگ سے لپٹ گیا۔ آس پاس جتنے بھی لوگ تھے اور جس کسی نے یہ دل کو تڑپا دینے والی گفتگو سنی اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی۔ اللہ اللہ کیا عجب ایمان افروز اور دل دہلانے والا منظر تھا۔

(نواب مشتاق احمد خان کی خود نوشت ”کاروان حیات“ کا ایک ورق)

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں