غزل گو شاعر آرزو لکھنوی نے ہندوستان میں بطور فلمی گیت نگار خوب شہرت پائی تھی۔ وہ شاعر ہی نہیں بہترین نثر نگار بھی تھے۔ ایک زمانہ میں غزل جیسی مقبول صنف میں شعرا وارداتِ قلبی اور کیفیات کا اظہار کرتے تھے۔ جب کہ استاد شعرا تشبیہات و استعارات، رعایتِ لفظی اور معنی آفرینی کے قائل تھے۔ آرزو لکھنوی نے غزل میں خوش گوئی اور نازک خیالی سے انفرادیت کا ثبوت دیا اور بہت پسند کیے گئے۔
کہا جاتا ہے کہ بطور نغمہ نگار ان کا پہلا سپرہٹ گیت فلم ”دیوداس” کے لیے سہگل کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا تھا۔ فلم کے بول تھے:
بالم آئے بسو مورے من میں
فلم کی ریلیزکے بعد ان کے گیتوں نے دھوم مچا دی اور پھر ان پر فلم انڈسٹری مہربان ہوتی چلی گئی۔ آرزوؔ لکھنوی نے کئی گیت لکھے اور نیو تھیٹر کی مشہور فلموں میں ان کے گیتوں کو مقبولیت حاصل ہوئی۔ ان فلموں میں دیوداس کے علاوہ اسٹریٹ سنگر، آندھی، مکتی، جوانی کی ریت، ڈاکٹر اور ہار جیت کے نام شامل ہیں۔ آرزوؔ لکھنوی ایک طویل عرصے تک کلکتہ کی فلم انڈسٹری میں اپنی شاعری کا لوہا منواتے رہے پھر انھیں بمبئی کی فلم انڈسٹری سے بھی بلاوا آیا۔ آرزوؔ لکھنوی 1942ء میں بمبئی چلے گئے اور وہاں فلم روٹی، لالہ جی اور جوانی کے لیے گیت لکھے، جو بہت مشہور ہوئے۔ یہیں آرزو لکھنوی فلمی مکالمے بھی لکھنے لگے تھے۔ ان کی لکھی ہوئی کام یاب فلموں میں بے قصور، تصور، پرایا دھن شامل ہیں۔
نوعمری میں آرزو لکھنوی نے شاعری کا آغاز کردیا تھا۔ وہ لکھنؤ کے ایک ایسے گھرانے کے فرد تھے جس کا اوڑھنا بچھونا ہی شاعری تھا۔ شہر لکھنؤ کی وہ خاص فضا جس میں بڑے بڑے مشاعرے منعقد ہوتے اور زبان و ادب کے بلند قامت نام ان کا حصّہ بنتے، اور اس پر آرزو کے گھر کا ادبی ماحول۔ سیّد انوار حسین نے شاعری شروع کی تو خود کو آرزو لکھنوی کہلوانا پسند کیا۔ یہی اردو شاعری میں ان کی پہچان اور شناخت بنا۔ تقسیم کے بعد آرزو پاکستان ہجرت کرکے آگئے اور یہیں کراچی میں 16 اپریل 1951 کو وفات پائی۔
آرزو لکھنوی نے گیت نگار کے طور پر شہرت تو پائی مگر انھوں نے غزل بھی خوب کہی۔ فلم لکھنے کے بعد ریڈیو کے لیے چند ڈرامے بھی لکھے۔
اردو زبان کے اس معروف شاعر کا کلام فغانِ آرزو، جہانِ آرزو اور سریلی بانسری کے عنوان سے کتابوں میں محفوظ ہے۔ آرزو لکھنوی کا یہ شعر بہت مشہور ہے۔
دفعتاً ترکِ تعلق میں بھی رسوائی ہے
الجھے دامن کو چھڑاتے نہیں جھٹکا دے کر