اسلام آباد: سینئر رہنم پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اسد قیصر کا کہنا ہے کہ کسی کو اجازت نہیں دیتے کہ وہ ہمارے ملک میں مداخلت کرے۔
اسد قیصر نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ پی ٹی آئی سمجھتی ہے کہ کسی ملک کو حق نہیں کہ وہ ہمارے معاملات میں مداخلت کرے، تمام معاملات بات چیت سے حل کیے جائیں۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ افغانستان کیلیے تمام سیاسی پارٹیوں سے مشاورت کر کے پالیسی بنائیں، پڑوسی ملک سے حالات کشیدہ ہوں گے تو دہشتگردی بڑھے گی، امن کیلیے ایک دوسرے کا ساتھ دینا چاہیے۔
سابق اسپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ ہمارے دور میں پاک افغان ٹریڈ ہوئی لہٰذا چاہتا ہوں امن کو فروغ دیا جائے۔
اپنے بیان میں انہوں نے یہ بھی کہا کہ سب سے بڑی سیاسی پارٹی کو دیوار سے لگایا جا رہا ہے۔
گزشتہ روز اے آر وائی نیوز کے پروگرام ’سوال یہ ہے‘ میں اسد قیصر کا کہنا تھا کہ عمران خان سب کو معاف کرنے کو تیار ہیں، ہر معاملے کیلیے ایک ٹائم فریم ہونا چاہیے، حکومت کے سامنے مطالبات تحریری رکھیں گے اور پھر ردعمل دیکھیں گے کہ حکومت کتنی سنجیدہ ہے۔
اسد قیصر نے کہا تھا کہ ہماری عمران خان سے ملاقات ہوگئی انہوں نے ڈائریکشن دی ہے، حکومت بھی اور لوگوں کے ساتھ بات کرے گی آپسی مشاورت بھی کرے گی، سب کو معلوم ہے حکومت کو کہاں سے سپورٹ ملتی ہے، ہم ڈائریکشن بانی پی ٹی آئی سے لیں گے لیکن حکومت کہاں سے ڈائریکشن لیتی ہے سب کو پتا ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ ملک میں جس طرح کے معاملات ہیں واحد بانی پی ٹی آئی مسائل سے نکال سکتے ہیں، عمران خان نے ملاقات میں کہا کہ ’پاکستان کیلیے سب کو معاف کر سکتا ہوں، پاکستان کیلیے سب کچھ قربان کرنے کو تیار ہوں، یہ نہیں ہو سکتا میں باہر آ جاؤں اور ورکرز اندر رہیں‘۔
ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کی گھر میں نظر بندی یا حراست سے متعلق کوئی بات ہمارے سامنے نہیں آئی، ان پر تمام مقدمات سیاسی انتقام کے طور پر بنائے گئے، ان کے خلاف تمام مقدمات میں کوئی سچائی نہیں ہے۔
اسد قیصر نے مطالبہ کیا تھا کہ بانی پی ٹی آئی سمیت تمام سیاسی قیدیوں کو فوری رہا کیا جائے، 9 مئی اور 26 نومبر کی تحقیقات کیلیے سپریم کورٹ کے 3 ججز پر مشتمل کمیشن بنایا جائے۔
’ہم چاہتے ملک میں استحکام آئے اور بحرانوں سے نکالیں، ہم چاہتے ہیں پاکستان آگے بڑھے لوگوں کے مسائل ختم ہوں، ہم چاہتے ہیں آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی ہو، حکومت نے ابھی اپنے مطالبات ہمارے سامنے نہیں رکھے، ہم نے ابھی اپنے مینڈیٹ کی بات نہیں کی ملک میں استحکام چاہتے ہیں۔‘