تازہ ترین

کچے کے ڈاکوؤں کو اسلحہ فراہم کرنیوالے 3 پولیس افسران سمیت 7 گرفتار

کراچی : پولیس موبائل میں جدید اسلحہ سندھ اسمگل...

پاکستان کو آئی ایم ایف سے 6 ارب ڈالر قرض پروگرام کی توقع

وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ...

اسرائیل کا ایران پر فضائی حملہ

امریکی میڈیا کی جانب سے یہ دعویٰ سامنے آرہا...

”سمجھ نہیں آرہی مراسلے کے معاملے پر اتنی مزاحمت کیوں ہو رہی ہے“

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اسد عمر کا کہنا ہے کہ سمجھ نہیں آ رہی کہ دھمکی آمیز مراسلے کے معاملے پر اتنی مزاحمت کیوں ہو رہی ہے، معلوم نہیں ڈی جی آئی ایس پی آر کیوں بار بار آکر وضاحتیں دے رہے ہیں۔

اے آر وائی نیوز کے پروگرام ”آف دی ریکارڈ“ میں اسد عمر نے کہا کہ میں نے یہ نہیں کہا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر کا بیان سیاسی ہے بلکہ کہا کہ وہ پہلے بیان دے چکے لیکن دوبارہ ضرورت کیوں تھی، معلوم نہیں وہ کیوں بار بار آکر وضاحتیں دے رہے ہیں، حکومت بیٹھے مزے کر رہی ہے اور ڈی جی آئی ایس پی آر دفاع میں آ رہے ہیں۔

اسد عمر نے کہا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر کے بیان میں کوئی نئی چیز نہیں، وہ بیان نہ دیتے تو ادارے اور ادارے کی لیڈر شپ کے لیے اچھا ہوتا، ڈی جی آئی ایس پی آر کی الگ اور ہماری الگ رائے ہے، مراسلے کو دیکھ کر ہم الگ نتیجے پر پہنچ رہے ہیں اسی لیے تحقیقات چاہتے ہیں۔

پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ وزیر دفاع خواجہ آصف کہتے تھے پاک فوج عوام کا ہڈیوں سے گوشت نچوڑ کر کھا گئی، میرا معصومانہ سوال ہے کہ کیا ڈی جی آئی ایس پی آر وزیر دفاع کی بات پر کوئی ردعمل دیں گے۔

اسد عمر نے کہا کہ قومی سلامتی کمیٹی کے پہلے اجلاس میں مراسلہ سامنے رکھا گیا اور اس کی حقیقت کو تسلیم کیا گیا، مراسلے میں واضح لکھا تھا کہ پاکستان کے ساتھ کیسا برتاؤ کیا جائے گا اور تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوگئی تو سب معاف کر دیا جائے گا، مراسلے میں کہا گیا کہ عمران خان کا روس جانے کا فیصلہ تنہا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ چند باوردی ممبرز نے ضرور کہا کہ ہمیں کہیں سازش نظر نہیں آرہی، چند سویلین ممبرز نے کہا ہمیں سازش نظر آرہی ہے، کوئی رپورٹ نہیں تھی کہ تحقیق کس طرح کی گئی، ہمارے سامنے کوئی انویسٹی گیشن رپورٹ نہیں تھی، باوردی ممبر نے کہا کہ مراسلے کو پارلیمانی سکیورٹی کمیٹی میں لے جائیں، پارلیمانی سکیورٹی کمیٹی کا اجلاس بلایا گیا تو اپوزیشن نے آنے سے انکار کر دیا۔

پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ مسئلہ قومی سلامتی کا ہے لیکن سیاسی طور پر اسے متنازع بنا دیا گیا، مسئلے کا حل سیاسی طور پر نہیں تحقیقاتی سطح پر نکالا جاسکتا ہے، ہم کہتے ہیں کہ بیان دینے کے بجائے سپریم کورٹ میں جائیں، سپریم کورٹ میں جوڈیشل کمیشن بنے اور تحقیقات ہو تو سب عوام کے سامنے آ جائے گا، تحقیقات کرانا چاہتے ہیں کہ جو لوگ ہمیں چھوڑ گئے کیوں امریکیوں سے ملتے رہے، اچانک کیوں سارے ارکان ہمیں چھوڑ کر چلے گئے۔

انہوں نے کہا کہ سازش اور مداخلت کی بحث چھوڑ دیں، قومی سلامتی کمیٹی میں مداخلت کا ذکر کیا گیا، مختلف رائے پائی جاتی ہے تو اس کا حل یہ ہی ہے کہ شفاف طریقہ کارا پنایا جائے، سپریم کورٹ سے زیادہ شفاف کیا طریقہ کار ہوسکتا ہے، معاملے کی تحقیقات ہونی چاہیے۔

اسد عمر نے کہا کہ مراسلہ وزیر اعظم عمران خان کے نوٹس میں 10 یا 11 تاریخ کو آیا تھا، وزیر اعظم نے کابینہ کی میٹنگ میں فیصلہ کیا کہ جوڈیشل کمیشن بننا چاہیے، جوڈیشل کمیشن بننے سے ایک دو دن پہلے ہی حکومت چلی گئی، اسپیکر قومی اسمبلی نے سپریم کورٹ کو مراسلہ بھیجا کہ تحقیقات کرائیں، صدر نے بھی سپریم کورٹ کو خط لکھ کر تحقیقات کا مطالبہ کیا، سب تحقیقات کا مطالبہ کر رہے ہیں تو یہ کوئی ذاتی رائے نہیں۔

سابق وزیر اعظم نواز شریف سے متعلق اسد عمر نے کہا کہ نواز شریف لندن میں کن لوگوں سے ملتے رہے شیئر کر دیا جائے گا، نواز شریف ان لوگوں کیساتھ بھی ملتے رہے جو ملک کے خیرخواہ نہیں، سوشل میڈیا بھرا ہوا ہے نواز شریف کس دن کس سے ملاقاتیں کرتے رہے، نواز شریف کی واپیس کی گارنٹی شہباز شریف نے دی تھی جو آج ملک کے وزیر اعظم ہیں۔

Comments

- Advertisement -