نیاز فتح پوری لکھتے ہیں، نواب آصفُ الدّولہ، فرماں روایانِ اودھ میں اپنی بعض خصوصیات کی وجہ سے بہت مشہور فرماں روا ہوا ہے، لیکن یہ شاید بہت کم لوگوں کو معلوم ہوگا کہ اس کی سب سے نمایاں خصوصیت اس کا پاکیزہ ذوقِ سخن تھا۔
اس والیٔ اودھ کی فیاضی اور سخاوت بھی ضربُ المثل بنی اور یہ کہاوت مشہور ہوگئی کہ جس کو نہ دے مولا اُس کو دلائے آصفُ الدَّولہ۔ یعنی مجازاً کہا جانے لگا تھاکہ جسے سرکار سے کچھ نہ مل سکے، آصف الدّولہ سے مل جاتا ہے۔ تذکرہ نویسوں نے اسے یوں بھی بیان کیا ہے؛ جس کو دے مولا، اُس کو دلائے آصفُ الدَّولہ۔ مطلب یہ کہ والیٔ اودھ اُسی کو دلواتا ہے جسے خدا دیتا ہے۔
معروف تذکرہ نگار علی لطف بیان کرتے ہیں، آصف الدّولہ ہر روز ایک نئی عمارت کا سنگِ بنیاد رکھتے تھے۔ اسی سبب لکھنؤ کے امراء اور اہلِ شہر کو بھی عمارتوں کا شوق پیدا ہوا اور لکھنؤ عالی شان عمارتوں کا شہر بن گیا۔
اس عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ والیٔ اودھ کی فنِ معماری میں دل چسپی اور تعمیرات کا شوق کس قدر تھا۔ اسی کے دور میں ریاست کے دارُالحکومت لکھنؤ میں ایرانی طرز کے باغ بنوائے گئے اور شان دار عمارتوں کے ساتھ حوض، فوّارے، خوب صورت کیاریاں اور درختوں کی قطاریں بھی ان کے حسن و دل کشی کا سبب تھیں۔
اودھ کے چوتھے نواب آصف الدّولہ لکھنوی تہذیب و ثقافت کی علامت اور اردو شاعری میں اُس اسلوب کے بانی تصوّر کیے جاتے ہیں جسے بعد میں دبستانِ لکھنؤ کے نام سے جانا گیا۔ ان سے پہلے اودھ کا مرکز فیض آباد تھا، اور لکھنؤ ایک معمولی قصبہ تھا، تاہم 1775ء میں تخت نشینی کے بعد آصف الدّولہ نے اودھ کو دہلی سے جداگانہ سیاسی، ثقافتی اور تہذیبی شناخت دینے کے اقدام کیے۔ انھوں نے لکھنؤ میں علم و ادب کے بڑے ناموں اور فنون کے ماہرین کو جمع کرلیا اور اسے اہلِ علم و باکمال شخصیات کے لیے شہرِ راحت بنا دیا۔ وہ یہاں کھنچے چلے آتے تھے۔
آج آصف الدّولہ کا یومِ وفات ہے۔ ان کا اصل نام محمد یحییٰ مرزا زمانی تھا۔ وہ 1748ء میں پیدا ہوئے۔ شہزادوں کی طرح ان کی تعلیم و تربیت کی گئی اور اردو، فارسی میں مہارت کے ساتھ انھوں نے دوسرے فنون میں بھی دست گاہ حاصل کی۔ وہ شروع ہی سے شاعری کا عمدہ ذوق رکھتے تھے اور بعد میں شاعر بھی مشہور ہوئے۔ امورِ سلطنت کی بات کی جائے تو انگریزوں کی کمپنی نے ایک معاہدہ کی صورت میں انھیں بے اختیار اور اپنا مطیع رکھا ہوا تھا۔
بعض تذکروں میں آیا ہے کہ اس فرماں روا کے دور میں مرزا محمد رفیع سودا، میر تقی میر اور میر سوز جیسے اہلِ کمال لکھنؤ آئے اور کہا جاتا ہے کہ سوز کو آصف الدّولہ نے شاعری میں اپنا استاد بنایا۔ لیکن نیاز فتح پوری جیسے بڑے ادیب اور نقّاد نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے، زیادہ سے زیادہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ آصفُ الدّولہ ان کے کلام کو پسند کرتا تھا اور ان کی شاگردی اختیار کرنے سے قبل اس کا انتقال ہو گیا۔ یا یہ کہ اگر شاگردی کا سلسلہ رہا بھی تو صرف چند دن جو نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہ درست ہے کہ اس کا کلام سوز کے رنگ کا ہے اور ممکن ہے کہ اس بنا پر کوئی شخص یہ کہے کہ آصفُ الدّولہ کا سارا کلام سوز ہی کا کلام ہے اور اسی لیے اب سوز کا کلام بہت کم نظر آتا ہے لیکن یہ کہنا بالکل غلط ہوگا کیوں کہ سوز نے جب کہا، ہمیشہ سہل زمینوں میں اور مشکل ردیف و قوافی اختیار ہی نہیں کیے۔ بَرخلاف اس کے آصفُ الدّولہ کے یہاں ایسی مشکل زمینیں نظر آتی ہیں کہ شاید ہی کسی اور شاعر کے کلام میں نظر آئیں اور میرے نزدیک یہ اثر تھا مصحفی اور انشا کی صحبت کا۔
اسی مضمون میں آگے چل کر نیاز صاحب لکھتے ہیں: بہرحال آصفُ الدّولہ نے سوز کی شاگردی اختیار کی ہو یا نہ کی ہو، یہ بالکل یقینی ہے کہ وہ قدرت کی طرف سے نہایت پاکیزہ ذوقِ سخن لے کر آیا تھا اور اس میں سوز یا کسی اور کی صحبت کو دخل نہ تھا۔ آصف الدّولہ کی ماں تاریخِ اودھ کی وہ مشہور خاتون ہے جسے بہو بیگم کے نام سے آج لکھنؤ کا ہر وثیقہ دار جانتا ہے۔
نیاز فتح پوری نے لکھا، آصف الدّولہ کی شاعری کی عمر کیا تھی یا یہ کہ کس عمر میں اس نے شاعری کی ابتدا کی، اس کے متعلق تاریخیں اور تذکرے ساکت ہیں۔ لیکن کلام کی کثرت کو دیکھ کر یہ ماننا پڑتا ہے کہ یہ شوق انہیں عنفوان شباب ہی سے شروع ہو گیا ہوگا۔ ان کا جو قلمی کلیات میری نظر سے گزرا ہے، بڑی تقطیع کے سیکڑوں صفحات پر محیط ہے اور تمام اصنافِ سخن اس میں پائے جاتے ہیں۔
آصفُ الدّولہ نے لکھنؤ میں انتقال کیا اور اپنے تعمیر کردہ امام باڑے میں دفن ہوئے۔ 1797ء میں آج ہی کے وفات پانے والے اودھ کے اس نواب کو ایک فیّاض اور دریا دل حکم راں، علم و فنون کے قدر دان اور عظیم سرپرست کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔