اس دنیا میں ہم اپنے بعض مشاہدات اور اچھے یا برے تجربات سے کچھ نہ کچھ ضرور سیکھتے ہیں اور سبق حاصل کرتے ہیں۔ ہم اپنی زندگی کے مختلف ادوار میں ہونے والے تجربات کا نچوڑ یا کوئی سبق آموز واقعہ بالخصوص نئی نسل کو سنانا چاہتے ہیں جس کا مقصد ان کی راہ نمائی کرنا اور انھیں جینے کا ہنر سکھانا ہو۔
ہمارے ساتھ اکثر چھوٹے بڑے واقعات پیش آتے ہیں، لیکن ان میں سے کچھ ہمارے ذہن پر نقش ہوکر رہ جاتے ہیں۔ یہ واقعہ دوسروں کے لیے بظاہر غیر اہم اور معمولی بات ہوسکتی ہے، لیکن جس کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا ہو شاید وہ اسے ہمیشہ یاد رکھنا چاہتا ہے۔ ممکن ہے کہ وہ اس سے بے حد متاثر ہوا ہو اور کسی وجہ سے وہ اس بات یا واقعہ کو فراموش نہ کرسکے۔ یہ ایک ٹیکسی ڈرائیور کی یادوں میں محفوظ ایسا ہی ایک چھوٹا سا واقعہ ہے جسے معروف ادیب اور ڈرامہ نگار اشفاق احمد نے ہم تک پہنچایا ہے۔ ملاحظہ کیجیے:
میں (اشفاق احمد) نے تھوڑے دن ہوئے ایک ٹیکسی ڈرائیور سے پوچھا (جیسا کہ میری عادت ہے ہر ایک سے پوچھتا رہتا ہوں، کیونکہ ہر ایک کا اپنا اپنا علم ہوتا ہے) کہ آپ کو سب سے زیادہ کرایہ کہاں سے ملتا ہے؟
اس نے کہا جناب، مجھے یہ تو یاد نہیں کہ کسی نے خوش ہو کر زیادہ کرایہ دیا ہو، البتہ یہ مجھے یاد ہے کہ میری زندگی میں کم سے کم کرایہ مجھے کب ملا اور کتنا ملا۔ میں نے کہا کتنا؟
کہنے لگا، آٹھ آنے۔ میں نے کہا وہ کیسے؟
کہنے لگا، جی بارش ہو رہی تھی یا ہو چکی تھی، میں لاہور میں نسبت روڈ پر کھڑا تھا، بارش سے جگہ جگہ پانی کے چھوٹے چھوٹے جوہڑ سے بنے ہوئے تھے تو ایک بڑی پیاری سی خاتون وہ اس پٹڑی سے دوسری پٹڑی پر جانا چاہتی تھی لیکن پانی کے باعث جا نہیں سکتی تھی۔ میری گاڑی درمیان میں کھڑی تھی، اس خاتون نے گاڑی کا ایک دروازہ کھولا اور دوسرے سے نکل کر اپنی مطلوبہ پٹری پر چلی گئی اور مجھے اٹھنی دے دی۔