منگل, مئی 28, 2024
اشتہار

جب دیوکا رانی کو اشوک کمار ملے!

اشتہار

حیرت انگیز

ہندوستان کی فلم نگری میں اشوک کمار نے بہ طور اداکار ہی اپنی صلاحیتوں کو نہیں منوایا بلکہ فلم سازی، ہدایت کاری کے ساتھ ساتھ گلوکاری کا شوق بھی پورا کیا اور متعدد معتبر فلمی ایوارڈز اپنے نام کیے۔ اشوک کمار 10 دسمبر 2001ء کو ممبئی میں چل بسے تھے۔

اشوک کمار نے فلموں کے علاوہ درجنوں بنگالی ڈراموں میں‌ بھی کام کیا تھا اور ہر میڈیم کے ناظرین میں مقبول تھے۔

ممتاز افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کا یہ مضمون اشوک کمار کے فلمی سفر اور ان کی شہرت و مقبولیت سے متعلق ہے جو قارئین کی دل چسپی کے لیے نقل کیا جارہا ہے۔

- Advertisement -

منٹو لکھتے ہیں:

نجمُ الحسن جب دیوکا رانی (اداکارہ) کو لے اڑا تو بومبے ٹاکیز میں افراتفری پھیل گئی۔ فلم کا آغاز ہو چکا تھا۔ چند مناظر کی شوٹنگ پایۂ تکمیل کو پہنچ چکی تھی کہ نجمُ الحسن اپنی ہیروئن کو سلولائڈ کی دنیا سے کھینچ کر حقیقت کی دنیا میں لے گیا۔

بومبے ٹاکیز میں سب سے زیادہ پریشان اور متفکر شخص ہمانسو رائے تھا۔ دیوکا رانی کا شوہر اور بمبے ٹاکیز کا ’’دل و دماغِ پس پردہ۔‘‘

ایس مکر جی مشہور جوبلی میکر فلم ساز (اشوک کمار کے بہنوئی) ان دنوں بمبے ٹاکیز میں مسٹر ساوک واچا ساؤنڈ انجینئر کے اسسٹنٹ تھے۔ صرف بنگالی ہونے کی وجہ سے انہیں ہمانسو رائے سے ہمدردی تھی۔ وہ چاہتے تھے کہ کسی نہ کسی طرح دیوکا رانی واپس آجائے۔ چنانچہ انہوں نے اپنے آقا ہمانسو رائے سے مشورہ کیے بغیر اپنے طور پر کوشش کی اور اپنی مخصوص حکمتِ عملی سے دیوکا رانی کو آمادہ کرلیا کہ وہ کلکتے میں اپنے عاشق نجمُ الحسن کی آغوش چھوڑ کر واپس بمبے ٹاکیز کی آغوش میں چلی آئے۔ جس میں اس کے جواہر کے پنپنے کی زیادہ گنجائش تھی۔

دیوکا رانی واپس آگئی۔ ایس مکر جی نے اپنے جذباتی آقا ہمانسو رائے کو بھی اپنی حکمتِ عملی سے آمادہ کرلیا کہ وہ اسے قبول کر لیں، اور بے چارہ نجمُ الحسن ان عاشقوں کی فہرست میں داخل ہوگیا جن کو سیاسی، مذہبی اور سرمایہ دارانہ حکمتِ عملیوں نے اپنی محبوباؤں سے جدا کر دیا تھا۔ زیرِ تکمیل فلم سے نجمُ الحسن کو قینچی سے کاٹ کر ردی کی ٹوکری میں پھینک تو دیا گیا مگر اب یہ سوال درپیش تھا کہ عشق آشنا دیوکا رانی کے لیے سیلو لائڈ کا ہیرو کون ہو۔

ہمانسو رائے ایک بے حد محنتی اور دوسروں سے الگ تھلگ رہ کر خاموشی سے اپنے کام میں شب و روز منہمک رہنے والے فلم ساز تھے۔ انہوں نے بمبے ٹاکیز کی نیو کچھ اس طرح ڈالی تھی کہ وہ ایک باوقار درس گاہ معلوم ہو۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے بمبئی شہر سے دور مضافات میں ایک گاؤں کو جس کا نام ’’ملاڈ‘‘ ہے اپنی فلم کمپنی کے لیے منتخب کیا تھا۔ وہ باہر کا آدمی نہیں چاہتے تھے۔ اس لیے کہ باہر کے آدمیوں کے متعلق ان کی رائے اچھی نہیں تھی۔ (نجمُ الحسن بھی باہر کا آدمی تھا)

یہاں پھر ایس مکر جی نے اپنے جذباتی آقا کی مدد کی۔ ان کا سالا اشوک کمار بی ایس سی پاس کر کے ایک برس کلکتے میں وکالت پڑھنے کے بعد بمبے ٹاکیز کی لیبارٹری میں بغیر تنخواہ کے کام سیکھ رہا تھا۔ ناک نقشہ اچھا تھا۔ تھوڑا بہت گا بجا بھی لیتا تھا۔ مکر جی نے چنانچہ برسبیلِ تذکرہ ہیرو کے لیے اس کا نام لیا۔ ہمانسو رائے کی ساری زندگی تجربوں سے دو چار رہی تھی۔ انہوں نے کہا دیکھ لیتے ہیں۔

جرمن کیمرہ مین درشنگ نے اشوک کا ٹیسٹ لیا۔ ہمانسو رائے نے دیکھا اور پاس کر دیا۔ جرمن فلم ڈائریکٹر فرانزاوسٹن کی رائے ان کے برعکس تھی۔ مگر بمبے ٹاکیز میں کس کی مجال کہ ہمانسو رائے کی رائے کے خلاف اظہارِ خیال کرسکے۔ چنانچہ اشوک کمار گانگولی جو ان دنوں بمشکل بائیس برس کا ہوگا، دیوکا رانی کا ہیرو منتخب ہوگیا۔

ایک فلم بنا۔ دو فلم بنے۔ کئی فلم بنے اور دیوکا رانی اور اشوک کمار کا نہ جدا ہونے والا فلمی جوڑا بن گیا۔ ان فلموں میں سے اکثر بہت کام یاب ہوئے۔ گڑیا سی دیوکا رانی، اور بڑا ہی بے ضرر اشوک کمار، دونوں سیلو لائڈ پر شیر و شکر ہو کر آتے تو بہت ہی پیارے لگتے۔ معصوم ادائیں، الہڑ غمزے۔ بڑا ہنسائی قسم کا عشق۔

لوگوں کو جارحانہ عشق کرنے اور دیکھنے کے شوق تھے۔ یہ نرم و نازک اور لچکیلا عشق بہت پسند آیا۔ خاص طور پر اس نئے فلمی جوڑے کے گرویدہ ہوگئے۔ اسکولوں اور کالجوں میں طالبات کا ( خصوصاً ان دنوں) آئیڈیل ہیرو اشوک کمار تھا اور کالجوں کے لڑکے لمبی اور کھلی آستینوں والے بنگالی کرتے پہن کر گاتے پھرتے تھے۔

تُو بَن کی چڑیا، میں بَن کا پنچھی…. بَن بن بولوں رے

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں