تازہ ترین

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

وزیراعظم شہباز شریف کی مزار قائد پر حاضری

وزیراعظم شہباز شریف ایک روزہ دورے پر کراچی پہنچ...

ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان مکمل کرکے واپس روانہ

کراچی: ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان...

پاک ایران تجارتی معاہدے پر امریکا کا اہم بیان آگیا

واشنگٹن : نائب ترجمان امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا...

جَل پری

کسی چھوٹی سی بستی میں کوئی بڑھیا رہتی تھی۔ اس کے آگے پیچھے ایک لڑکی کے سوا کوئی دوسرا نہ تھا۔ بڑھیا نے لاڈ پیار میں اسے ایسا اٹھایا تھا کہ وہ اپنوں کو خاطر میں لاتی نہ غیروں کو۔ زبان دراز، پھوہڑ، کام چور۔ ماں کے جھونٹے نوچنے کو تیار مگر ماں تھی کہ داری صدقے جاتی۔ اس کے نخرے اٹھاتی۔

بڑھیا نے اپنی مرنے والی بہن کی لڑکی کو بھی اپنے پاس رکھ لیا تھا۔ بیچاری بے گھر اور بے بس۔ سارے دن خالہ کی خدمت میں لگی رہتی۔ بہن کے نکتوڑے اٹھاتی، تب کہیں روکھی سوکھی میسر آتی۔ غریب اپنی ننھی سی جان کو مارتی لیکن کیا مجال جو کبھی خالہ نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا ہو یا بہن نے میٹھی زبان سے کوئی بات کی ہو۔ جب دیکھا ماں بیٹیوں کو غرّاتے۔ مثل تو یہ مشہور ہے کہ ماں مرے اور موسی جیے۔ ہوتی ہوں گی ماں سے زیادہ چاہنے والی خالائیں بھی۔ اس کے نصیب سے تو بڑھیا جلادنی تھی۔

عید بقرعید کو بھی بیچاری اچھے کھانے، اپنے کپڑوں کے لیے ترستی کی ترستی ہی رہ جاتی۔ اس برے برتاؤ پر شاباش ہے اس لڑکی کو کہ ایک دن بھی اس نے کسی سے شکایت نہیں کی، نہ کام کاج سے جی چرایا۔ جس حال میں خالہ رکھتی رہتی اور ہنسی خوشی وقت گزارتی۔

بڑی بی اگر اندھی تھیں یا ان کے دل سے ترس اٹھ گیا تھا تو دوسرے تو اندھے نہ تھے۔ دنوں لڑکیوں کا رنگ ڈھنگ سب کے سامنے تھا۔ پاس پڑوس والیاں دیکھتیں اور جلتیں مگر کیا کرسکتی تھیں۔ ایک تو پرائی آگ میں پڑے کون؟ دوسرے بڑھیا چلتی ہوا سے لڑنے والی۔ بد مزاج۔ حق ناحق الٹی سیدھی بکنے لگے۔ اچھی کہو بری سمجھے۔ جھاڑ کا کانٹا ہو کر لپٹ جائے۔ پڑوسنوں کا اور تو کیا بس چلتا۔ بڑھیا اپنے گھر کی مالک تھی۔ ایک اس کی بیٹی دوسری بھانجی۔ ہاں انہوں نے اپنے دل کے جلے پھپولے پھوڑنے کو دونوں لڑکیوں کے نام رکھ دیے۔ جب آپس میں ذکر آتا تو بڑھیا کی چہیتی کو تتیا کہیں کہ ہر وقت بھن بھن، ذرا چھیڑا اور کاٹا۔ دوسری کو گؤ کہ نگوڑی پٹتی ہے، بُرا بھلا سنتی ہے۔ اور کان تک نہیں ہلاتی۔

وہ جو مثل ہے کہ نکلی ہونٹوں اور چڑھی کوٹھوں۔ بستی ہی کون سی لمبی چوڑی تھی۔ دونوں لڑکیوں کے یہ نام سب کو یاد ہوگئے۔ جہاں ذکر آتا بڑھیا کو تتیا اور بھانجی کو گؤ کہتے۔ ایک دن کہیں جھلو خانم کے کانوں میں بھی بھنک پڑگئی۔ وہ آئے تو جائے کہاں۔ پڑوسنوں پر تو دل ہی دل میں خوب برسی کہ جاتی کہاں ہیں میرا موقع آنے دو۔ ایسی پھلجھڑی چھوڑوں گی کہ گاؤں بھر میں ناچتی پھریں۔ تتیے ہی نہ لگادوں تو بات ہی کیا۔ ہاں غریب بھانجی کہ کم بختی آگئی۔ کہاوت سنی ہوگی کہ

کمہار پر بس نہ چلا تو گدھیا کے کان امیٹھے۔

جب ہوتا اسے گود گود کر کھائے جاتی کہ ہاں یہ گؤ ہے اور میری بچی تتیا؟ خدا کرے کہنے والوں کی زبان میں تتیے ہی کاٹیں۔ کیوں ری تُو گؤ ہے؟ یہ سارے کوتک تیرے ہی ہیں۔ میں سب جانتی ہوں۔ ارے تیرے کہیں اس نے ڈنگ مارا ہوگا؟ نہ جانے میرے گھر میں سوکن بن کر کہاں سے آ مری۔ یہ جیسی مسمسی ہے اسے کوئی نہیں جانتا۔

اس طرح روز بڑھیا بکا کرتی اور لڑکی شامت کی ماری کو سننا پڑتا۔ سننے کے سوا اسے چارہ ہی کیا تھا۔ خدا کسی کو کسی کے بس میں نہ ڈالے۔ ایک دن بستی کے باہر کوئی میلہ تھا۔ بڑھیا کی لاڈلی اچھے کپڑے پہن مٹکتی اتراتی اپنی سہیلیوں کے ساتھ میلہ دیکھنے چلی۔ گؤ بھی آخر لڑکی ہی تھی۔ ایک ایک کا مونہہ دیکھنے لگی۔ ہمسائی اوپر سے جھانک رہی تھیں۔ انہوں نے کہا، ’’بوا اس بچی کو بھی بھیج دو۔ اس کا دل بھی خوش ہوجائے گا۔ دیکھنا بے چاری کیسی چپ چاپ کھڑی ہے۔‘‘

بڑی بی جھلاّ کر بولیں، ’’یہ میلہ میں جانے کے قابل ہے۔ سر جھاڑ مونہہ پہاڑ۔ نہ ڈھنگ کے کپڑے، نہ کہیں جانے کا سلیقہ۔ دوسرے گھر کا کام کون کرے گا۔ اس کی لونڈیاں بیٹھی ہیں جو کام کرنے آئیں گی۔‘‘ اور لڑکی سے چلّا کر کہنے لگی، ’’چل گھڑا اٹھا اور کنویں پر سے پانی لا۔‘‘

اس غریب لڑکی نے گھڑا اٹھایا اور آنکھوں میں آنسو ڈبڈبائے کنویں پر گئی، پانی بھرا اور درخت کی چھاؤں میں پہنچی کہ ذرا دل ٹھہر جائے تو گھر چلوں۔ رات دن کی مصیبت پر اسے رونا آگیا۔ اتنے میں پیچھے سے اس کو ایک آواز سنائی دی۔ اس نے جھٹ پلّو سے آنسو پوچھ کر گردن اونچی کی تو دیکھا ایک بڑھیا کھڑی ہے۔ بڑھیا نے گڑگڑا کر لڑکی سے کہا، ’’بیٹی پیاسی ہوں ذرا سا پانی پلا دے۔‘‘ لڑکی نے خوشی خوشی بڑھیا کو پانی پلا دیا۔

پانی پی کر بڑھیا نے لڑکی کو دعائیں دیں اور بولی، ’’تم بڑی اچھی لڑکی ہو۔ میں تمہارے ساتھ ایسا سلوک کرتی ہوں کہ ساری عمر یاد کرو گی۔ لو آج سے جب تم بات کرو گی تمہارے مونہہ سے موتی جھڑیں گے۔‘‘ یہ کہتے کہتے بڑھیا لڑکی کی آنکھوں کے آگے سے غائب ہوگئی۔ اصل میں وہ بڑھیا جَل پری تھی۔

جَل پری تو چلی گئی، اور لڑکی بھی اپنا گھڑا سَر پر رکھ اپنے گھر کے طرف روانہ ہوئی۔ لیکن اب اسے یہ فکر ہوا کہ یہ بڑھیا کون تھی اور اس نے کیا کہا؟ میں اس کا مطلب نہیں سمجھی۔

گھر پہنچی تو خالہ نے بیچاری کی خواب خبر لی، ’’اب تک کہاں رہی تیرا کام کرنے کو دل نہیں چاہتا تو کہیں اور چلی جا۔‘‘

لڑکی دبی زبان سے بولی، ’’خالہ جی اب ایسا نہیں ہوگا۔ ایک بڑھیا کو پانی پلانے لگی تھی۔‘‘ لڑکی کا مونہہ سے بات کرنا تھا کہ آنگن میں موتی بکھر گئے۔ جل پری کا کہنا سچ ہوا۔ بڑھیا نے جو چمکتے ہوئے موتی دیکھے تو دیوانوں کی طرح جھپٹی اور موتی چننے لگی۔ موتی سمیٹ چکی تو بڑے پیار سے بولی، ’’چندا! یہ کہاں سے لائی؟‘‘

لڑکی نے کہا، ’’خالہ جی لائی تو کہیں سے بھی نہیں، میرے مونہہ سے جھڑے ہیں۔‘‘

بڑھیا ہنس کر بولی، ’’چل جھوٹی۔ مونہہ سے بھی موتی جھڑا کرتے ہیں۔ ایک واری سچ بتا ضرور تجھے کوئی خزانہ ملا ہے۔‘‘

’’نہیں خالہ اللہ جانے میرے مونہہ سے جھڑے ہیں۔ ایک بڑھیا کنویں پر ملی تھی۔ اسے میں نے پانی پلایا۔ اس نے مجھے دعا دی کہ جب تُو بات کرے گی تیرے مونہہ سے موتی جھڑیں گے۔‘‘ لڑکی نے جواب دیا۔ وہ ضرور کوئی پری تھی مگر بیٹی اب تو دوچار دن پانی بھرنے نہ جائیو پریوں کا کیا بھروسہ۔ آج مہربان ہیں تو کل قہرمان۔ تجھے کہیں کنویں میں نہ لے جائیں۔‘‘ بڑی بی بڑی تیز تھیں۔ بھانجی سے تو ظاہر میں یہ باتیں بنائیں لیکن دل میں کھول ہی تو گئی کہ پری نے میری بچّی کو موتیا کھان نہ بنایا۔ بیٹی میلے میں سے آئی تو اسے خوب پٹیاں پڑھائیں اور بڑی مشکل سے دوسرے دن اس کو کنویں پر پانی بھرنے کے لیے بھیجا۔

تتیا مرچ اوّل تو گئی بڑے نخروں سے۔ پھر کنوئیں پر ڈول کو جھٹکتی پٹکتی رہی۔ جھینک پیٹ کر گھڑا بھرا اور درخت کے نیچے جا بیٹھی۔ بیٹھی ہی تھی کہ جَل پری بڑھیا کے روپ میں اس کے بھی پاس آئی۔ بولی، ’’بیٹی! ذرا سا پانی تو پلا دے۔ کب سے پیاسی مر رہی ہوں۔‘‘

بڑھیا کی لڑکی ویسے ہی جلاتن۔ پھر جل پری نے ایسی گھناؤنی صورت بنا رکھی تھی کہ دیکھے سے نفرت ہو۔ گھرک کر بولی، ’’چل چل، میں نے کوئی پیاؤ لگا رکھی ہے۔‘‘

جل پری گھگھیا کر بولی، ’’پلا دے بیٹی ثواب ہوگا۔‘‘

لڑکی نے جواب دیا، ’’جاتی ہے یا پتھر ماروں۔‘‘

’’اری میں بہت پیاسی ہوں۔‘‘

’’میری جوتی سے۔ پیاسی ہے تو کنویں میں ڈوب جا۔‘‘ لڑکی نے تیزی سے جواب دیا۔

جل پری کو پانی کی کیا ضرورت تھی۔ اسے تو اس بھیس میں اپنا کرشمہ دکھانا تھا۔ غصّے سے بولی، ’’بدتمیز لڑکی جاتی کہاں ہے۔ اتنی آپے سے باہر ہوگئی۔ میں بھی تجھے وہ مزہ چکھاتی ہوں کہ یاد رکھے۔ جا میں نے کہہ دیا کہ آج سے جب تو بات کرے گی تیرے مونہہ سے مینڈک پھدک پھدک کر باہر آئیں گے۔

لڑکی کو اس بات پر غصّہ تو بہت آیا۔ جوتی اٹھا مارنے کو کھڑی ہوئی لیکن پری کب ٹھہرنے والی تھی وہ بددعا دیتے ہی غائب ہوگئی۔ لڑکی دیر تک دانت پیستی رہی۔ پری کا بھی اسے انتظار تھا۔ دوپہر ہونے آئی اور پری وری کوئی نہیں دکھائی دی تو یہ دل ہی دل میں بڑبڑاتی اپنے گھر روانہ ہوئی۔

ماں اپنی چہیتی بیٹی کے انتظار میں دروازے کی طرف ٹکٹکی لگائے بیٹھی تھی۔ دیکھتے ہی پوچھا، ’’کہو بیٹی پری ملی اس نے تجھے کیا دیا۔‘‘

لڑکی جلی بھنی تو پہلے ہی چلی آرہی تھی تڑخ کر جواب دیا، ’’چولھے میں جائے تمہاری پری۔ نگوڑی میری تو گردن بھی ٹوٹ گئی۔‘‘

’’آخر کیا ہوا؟ پری آج نہیں آئی؟‘‘ ماں نے پوچھا۔

’’کیسی پری؟ وہاں تو ایک پگلی سی بڑھیا نجانے کہاں سے آن مری تھی۔‘‘ لڑکی نے جل کر جواب دیا۔

لڑکی جب بات کرتی اس کے مونہہ سے مینڈکیاں نکل کر زمین پر بھدکنے لگتیں۔ پہلے تو بڑھیا نے اپنی دھن میں دیکھا نہیں۔ لیکن جب ایک مینڈکی اس کی گود میں جاکر اچھلنے لگی تو وہ اچھل پڑی۔ ’’اوئی یہ مینڈکی کہاں سے آئی۔‘‘ پھر جو دیکھتی ہے تو سارے صحن میں مینڈکیاں ہی مینڈکیاں کودتی پھر رہی ہیں۔ ’’ہے ہے اری کیا گھڑے میں بھر لائی ہے۔‘‘

’’اسی پچھل پائی بڑھیا نے کوسا تھا کہ تیرے مونہہ سے مینڈکیاں برسیں گی۔‘‘ بیٹی نے بسور کر جواب دیا۔

’’جھلسا دوں اس کے مونہہ کو۔ وہ پری نہیں کوئی بھتنی ہوگی۔‘‘ بڑھیا بولی۔

’’امّاں یہ سب اس کٹنی کے کرتوت ہیں۔ اسے تم نے گھر میں کیوں گھسا رکھا ہے۔‘‘

’’اچھا اب تُو تو مونہہ بند کر پڑوسنیں دیکھ لیں گی تو سارا گاؤں تماشا دیکھنے آجائے گا۔ دیکھ میں اس مردار کی خبر لیتی ہوں۔‘‘

یہ کہہ کر بڑھیا نے پھکنی اٹھا، بیچاری بے قصور بھانجی کو دھننا شروع کردیا۔ ’’کیوں ری مردار، تیرے مونہہ سے تو موتی جھڑیں اور میری بچّی کے مونہہ سے مینڈکیاں۔ جاتی کہاں ہے۔ آج میں بھی تیری دھول جھاڑ کر رہوں گی۔‘‘

بڑھیا اپنی یتیم بھانجی پر پل پڑی۔ مارنے کے بعد بھی بڑھیا کو صبر نہ آیا۔ ہاتھ پکڑ گھر سے باہر نکال دیا۔ لڑکی اور کہاں جاتی کنواں ہی پاس تھا۔ روتی ہوئی اس درخت کے نیچے جا بیٹھی جہاں جل پری ملی تھی۔ کبھی خیال کرتی کہ ڈوب مروں۔ کبھی سوچتی کہ کسی اور بستی میں چلی جاؤں۔ اتنے میں جل پری بھی آگئی اور اس نے لڑکی سے پوچھا، ’’بیٹی روتی کیوں ہے؟‘‘

لڑکی نے اپنی بپتا سنائی اور کہا، ’’تمہاری بدولت میں گھر سے نکالی گئی ہوں۔‘‘

پری قہقہہ لگا کر بولی، ’’اچھی لڑکیاں کہیں اس طرح بے آس ہو کر رویا کرتی ہیں۔ جا خدا تیرے دن پھیر دے۔ آج سے تو پھولوں کی سیج پر شاہی محل میں سوئے گی۔‘‘

اللہ کو نہ بگاڑتے دیر لگتی ہے نہ بناتے۔ اتفاق سے ادھر تو پری نظروں سے اوجھل ہوئی اور ایک شہزادہ شکار کھیلتا پانی کی تلاش میں کنویں کے پاس آیا۔ ڈول اٹھاتے اٹھاتے لڑکی پر نظر پڑی۔ لڑکی حقیقت میں چاند کا ٹکڑا تھی۔ کیسا پانی اور کیسی پیاس۔ ڈول وول چھوڑ لڑکی کے پاس آیا۔ بات کی کہ مونہہ سے پھول کیسے سچ مچ کے موتی جھڑتے ہیں۔ اتنے میں پھر جل پری سامنے آئی۔ اب وہ اور ہی شان سے آئی تھی۔

شہزادہ سمجھا کہ یہ لڑکی کی ماں ہے۔ اس نے پری سے لڑکی کی درخواست کی۔ جل پری نے عہد و پیمان کرکے لڑکی کو شہزادے کے ساتھ کر دیا۔

شہزادہ اپنے ماں باپ کا اکلوتا بیٹا تھا۔ وہ لڑکی کو اپنے محل میں لے گیا۔ بہو کو دیکھ کر ساس سسرے بہت خوش ہوئے۔ بڑی دھوم دھام سے شادی ہوئی۔ بن ماں باپ کی لاوارث لڑکی کو خدا نے اس کے صبر کا پھل دیا۔ بڑھیا اور بڑھیا کی تتیا ساری عمر اپنے تتیے میں کھولتی اور مینڈکوں ہی کے چکر میں رہی۔

(اردو کے ممتاز صاحبِ اسلوب ادیب اشرف صبوحی کے قلم سے)

Comments

- Advertisement -