اسلام آباد: سابق صدر آصف زرداری ںے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی جمہوری جماعت ہے جس نے ہر مارشل لا میں ڈکٹیٹر سے جنگ لڑی لیکن کبھی بھی اداروں پر تنقید نہیں کی اور نہ یوں سڑکوں پر اداروں کو گھسیٹا۔
وہ اسلام آباد میں ایک ہنگامی پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے انہوں نے کہا کہ مجھے گرفتارکیا گیا تو اربوں روپے غبن اور کرپشن کے الزامات لگائے گئے اور مجھ پر تشدد کیا گیا تاہم آج میں نہ صرف یہ کہ ان الزامات سے بری ہوگیا ہے بلکہ آج آپ کے سامنے پر عزم موجود ہوں۔
ظلم کی طویل داستانیں ہیں
انہوں نے کہا کہ ہم پر ظلم کی طویل داستانیں ہیں میں کون کون سا قصہ سناؤں مجھے لاہور سے گرفتارکرنے کے بعد کراچی منتقل کیا گیا جہاں مجھے ایم پی او میں بھی رکھا جاتا تھا ہے اور رہا ہوکر باہر نکلنے لگتا تو سپرنٹنڈنٹ کہتے کہ سامان رکھ دیں کیوں کہ آپ نے پھر واپس آنا ہے۔
سابق صدر آصف زرداری نے کہا کہ مرتضیٰ بھٹوکو ہمارے دور میں قتل کروایا گیا اور پھر منتخب حکومت کو برخاست کر دیا گیا لیکن جب دوبارہ ہماری حکومت آئی تو میں نے فاروق لغاری کے ساتھ بیٹھ کر لنچ کیا کیوں کہ میں سیاسی انتقام پر یقین نہییں رکھتا۔
مجھ پر جھوٹے مقدمات بنائے، تشدد کیا گیا
سابق صدر نے کہا کہ ماضی میں مجھ پر12 مقدمات بنائےگئے جو کہ تمام تر سیاسی مقدمات تھے جن کا اب میں ذکر تک نہیں کرنا چاہتا اور موجودہ وقت میں وہ کیسز بنائے گئے جن کا کوئی ثبوت ہی نہیں تھا جس پر میں نے سپریم کورٹ میں بھی کہا کہ جناب میری سزا تو مکمل ہوچکی ہے۔
انہوں نے نواز حکومت کے سابقہ دور کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ میاں صاحب نے میرے خلاف نیب کا قانون بنایا اور پھر نیب میں اپیل کے قانون میں ترمیم کی اس دوران مجھے جیل میں سات دن تک رکھا گیا جہاں بے پناہ تشدد کیا گیا اور پولیس یہ دعوی کرتی رہی کہ میں نے خودکشی کی کوشش کی۔
بے گناہ 24 سال جیل کاٹی
آصف زرداری نے کہا کہ میرے ساتھ بڑے عجیب قسم کے مذاق اور سازشیں ہوئیں، نیب کے کیس کی سزا 7 سال ہے لیکن میں نے تو 24 سال سزا کاٹی لیکن اس کے باوجود سپریم کورٹ میں میری استدعا نہیں سنی گئی۔
سابق صدر کا کہنا تھا کہ مشرف دور میں میرے خلاف 2 ریفرنسز بنائے گئے جس میں ایک ایک ریفرنس نارکوٹکس کا تھا جس میں ایک دوست کو میرے خلاف اکسایا گیا دوست نے سزا کاٹی لیکن میرے خلاف گواہی نہیں دی اسی طرح عارف بلوچ پھانسی چڑھ گیا لیکن میرے خلاف گواہی نہیں دی۔
اپنے خلاف مقدمات جیل میں بیٹھ کر کاٹے
آصف زرداری نے کہا کہ میرے خلاف ایسے ایسے لوگوں کو پیش کیا گیا جنہیں جانتا تک نہیں تھا لیکن میں نے اپنے خلاف تمام مقدمات جیل میں بیٹھ کر لڑے اور سرخرو بھی ہوا اگر میں چاہتا تو ہر کیس کے بعد ایک پریس کانفرنس کرسکتا تھا لیکن میں عدلیہ کے ساتھ لڑتا نہیں بلکہ ان کےساتھ بھاگتا ہوں جب تک وہ تھکتے نہیں۔
سابق صدر نے پرویز مشرف کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ مخالفین کو اب سمجھ آ گئی ہوگی کہ بی بی این آر او کیوں چاہتی تھیں کیوں کہ اس این آر او نے ہی مشرف کی وردی اتروائی اور ملک میں دوبارہ جمہوریت کے دور کا آغاز ہوا اور اسی این آر او سے جمہوریت، الیکشن اور نوازشریف کی واپسی ہوئی۔
بی بی شہید کی باتیں یاد آتی ہیں
انہوں نے کہا کہ میں نے بی بی کو شہید ہوتے دیکھا اور آج ان کی ساری باتیں اور یادیں ذہن میں آرہی ہیں، دوست موجود ہیں اور تاریخ بھی جانتے ہیں جو ضرورت پڑنے پر بتا بھی سکتے ہیں۔
سابق صدر نے کہا کہ میں چاہتا تو میاں برادران کو لاہور میں حکومت نہ کرنے دیتا ہمیں کچھ دوستوں نےمشورہ دیا تھا نوازشریف کو پنجاب کی حکومت نہ دیں، لیکن ہماری جنگ ہمیشہ جمہوریت کیلئے ہوتی تھی نہ کہ ذاتی نہیں۔
ریفرنس بنانے والوں کو کون روکے گا
انہوں نے اپنے خلاف مقمدمات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ بی ایم ڈبلیو کیس قابل مذمت ہے، سیکنڈ ہینڈ گاڑی میری ملکیت نہیں ہے لیکن پھر بھی مجھے ان مقدمات میں پھنسایا گیا آخر ان ریفرنس بنانے والوں کو کون روکے گا اور وہ لوگ کہاں گئے جو کہتے تھے کہ میں ٹرک میں اربوں روپے لے کرگیا تھا ؟
ایسے کام نہیں کرنا چاہتا کہ تاریخ مجھے بھول جائے
آصف زرداری نے کہا کہ پیپلزپارٹی نے کبھی کرپشن نہیں کی اور نہ پیپلزپارٹی نے کبھی انتقامی کارروائی نہیں کی اورنہ ہی آئندہ ایسا کرنے کا کوئی ارادہ رکھتی ہے، ایک کلرک اپنے جونیئر کلرک کو اختیارات نہیں دیتا لیکن میں نے 5 سال اپنے دورِ صدارت میں اختیارات پارلیمنٹ کو منتقل کیے۔
انہوں نے کہا کہ میڈیا اور سوشل میڈیا سے سب ڈرتے ہیں، سب کوگھرجانا ہے ایسا نہ ہو ایک پٹی چل جائے اور بچے پوچھیں بابا یہ کیا ہے ؟ انویسٹی گیشن کا ایکسپرٹ ہوں اپنی حکومت میں سب کچھ کرسکتا تھا لیکن اپنے دور میں کوئی ایسا اقدام نہیں کیا کہ تاریخ مجھے بھول جائے۔