خاکہ نگاری اردو میں ایک مقبول صنف رہی ہے۔ زیادہ تر اہلِ قلم نے ان شخصیات کے خاکے لکھے ہیں جو فنونِ لطیفہ کے کسی خاص شعبہ میں نام ور ہوئے یا کسی خاص میدان میں اپنے کام کی وجہ سے مشہور تھے۔ کئی بڑے خاکہ نگاروں نے اردو زبان میں تازگی و توانائی، دل کشی و شگفتگی اور ادبی روایت و معیار کو برقرار رکھتے ہوئے مشاہیر اور معروف لوگوں کے شان دار خاکے لکھے ہیں۔
آج بھی اردو کے رسائل و جرائد میں بھی یہ شخصی خاکے اور تذکرے شائع ہورہے ہیں اور انھیں دل چسپی سے پڑھا جاتا ہے۔ لیکن کسی عام آدمی، یا معمولی کام کرنے والے انسان کی شخصیت اور اس کے کام کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے اردو میں مولوی عبد الحق نے بلاشبہ لازوال خاکہ اپنے مالی نام دیو کا لکھا تھا۔ اسی طرح رشید احمد صدیقی جیسے ادیب کا خاکہ بعنوان کندن بہت مشہور ہوا۔ پیشِ نظر اقتباس ڈاکٹر اسلم پرویز کے شخصی خاکے اور تذکرے پر مبنی کتاب سے لیا گیا ہے اور یہ بھی ایک عام عورت کے بارے میں ہے۔ یہ خاتون ڈاکٹر اسلم پرویز کی چچی ہیں جن کی عادات اور زندگی کے بعض واقعات کو مصنّف نے دل چسپ انداز میں بیان کیا ہے۔ اسلم پرویز کا یہ خاکہ بلاشبہ ایک عام اور بیوہ عورت کو جو کہ اپنا درست نام بتانے پر بھی قدرت نہیں رکھتی تھی اسے حیاتِ جاوداں عطا کرتا ہے۔
اسلم پرویز نے چچی کی زندگی کو اس طرح پیش کیا ہے کہ وہ قاری کے سامنے چلتی پھرتی اور بات چیت کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ چچی کی پسند اور ناپسند، مجبوری و ناچاری میں کروفر کے ساتھ زندگی گزارنے کی جو جھلک اس خاکے میں دکھائی دیتی ہے وہ مصنّف کا کمال ہے۔ ڈاکٹر اسلم پرویز کے مطابق فصیح اردو میں چچی کا نام تو محمد النّسا تھا لیکن جب وہ اپنا تعارف خود کراتیں تو اپنا نام ٹھہراؤ کے ساتھ ممد نساں اور روانی میں ممن نساں بتاتی تھیں۔ چچی کا تعارف خود اسلم صاحب کی زبان سے ملاحظہ کیجیے:
’’چچی نے لگ بھگ اسّی برس کی زندگی پائی۔ زندگی کی آدھی صدی انھوں نے ۱۹۴۷ کے پہلے کی دلّی میں گزاری اور آدھی سے کچھ کم ۴۷ کے بعد کی دلّی میں۔ چچی ان لوگوں میں سے تھیں جو اپنے زمانے کے علاوہ کسی اور زمانے میں نہ تو جینا پسند کرتے ہیں اور نہ ہی جی سکتے ہیں۔ اس لیے چچی نے بھی ۴۷ کے بعد اپنی زندگی کے پینتیس چالیس سال پرانی دلّی کے ان ہی محلوں میں گزار دیے جہاں وقت بالکل اسی طرح ٹھہرا ہوا ہے جس طرح سیلاب گزر جانے کے بعد سیلاب کا پانی آس پاس کے گڑھوں میں ٹھہرا رہ جاتا ہے۔ لیکن ۴۷ کے بعد تو چچی بس ایک ہی بار فصیل کے باہر آئیں اور وہ بھی تب جب ہم انھیں دلّی دروازے کے باہر پہنچانے گئے تھے۔”
ڈاکٹر محمد اسلم پرویز لکھتے ہیں، چچی ہمارے گھر میں کتنے ہی مختصر دورے پر کیوں نہ آئیں لیکن چاق و چوبند پریس رپورٹر کی طرح وہ جلدی جلدی اپنی تمام تفتیش مکمل کر لیا کرتی تھیں۔
یہ خاکہ بعنوان چچی ہندوستانی معاشرے کی ایک ایسی تصویر پیش کرتا ہے جس میں زندگی کے تمام رنگ شامل ہیں۔ اپنا دکھ خواہ کیسا ہو مگر چچی کسی دوسرے کو رنج و الم میں نہیں دیکھ سکتیں۔ غریبی کو انھوں نے بہت قریب سے دیکھا تھا مگر زمانے سے آنکھ ملا کر جینا بھی انھوں نے سیکھ لیا تھا۔ روزمرہ کی زندگی اور بیمار، آرام کے بہت سے معاملات کبھی اعتقاد کے ضعف سے تو کبھی خوش اعتقادی سے حل کر لیتیں۔ بزرگوں سے انھیں کوئی بیر نہ تھا مگر قبروں کے جلالی پہلوؤ ں کی نشان دہی بھی خوب کرتی تھیں۔ فصیل بند علاقے کے جن جن گھرو ں میں ان کا آنا جانا تھا وہاں ایک ملازم سے کہیں زیادہ اس گھر کے ایک فرد کی طرح رہتیں اورپورے محلے کے لیے ان کی حیثیت چلتی پھرتی خبر رساں ایجنسی کی طرح تھی۔
اس شخصی خاکے میں اسلم پرویز مزید لکھتے ہیں: چچی نے بیوہ اور بے سہارا ہونے کے بعد اپنے تمام تر دقیانوسی پن کے باوجود حالات کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جینا سیکھ لیا تھا۔ وہ سیدانی تھیں اور اس زمانے کی سیدانی جب شادی بیاہ کے معاملوں میں لڑکی دیتے ہوئے اس بات کا بہت خیال رکھا جاتا تھا، لیکن جب چچی نے اپنی لڑکیوں کی شادیاں کیں تو ان کے سامنے ایک ہی بات تھی اور وہ یہ کہ رانڈ ماں کی جوان بچیاں جتنی جلدی ہوسکے اپنے گھر کی ہو جائیں اچھا ہے۔ انھوں نے سید زادوں کے انتظار میں اپنی لڑکیوں کو چھاتی پر نہیں بٹھائے رکھا۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ ان کے چاروں دامادوں میں سے کوئی سید زادہ ہے کہ نہیں۔