کراچی: معروف قانون دان انور منصور نے کہا ہے کہ عاصمہ جہانگیر ضرورت مندوں کا مقدمہ بلامعاوضہ لڑتی تھیں، انہوں نے دو روز قبل سپریم کورٹ میں بھی ایک غریب خاتون کا مقدمہ لڑنے کا اعلان کیا تھا۔
سینئر قانون دان انور منصور نے اے آر وائی سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ عاصمہ جہانگیر ضرورت مندوں کا کیس بلا معاوضہ لڑتی تھیں، انہوں نے آمروں کے خلاف سب سے پہلے جدوجہد شروع کی اور وکلا تحریک میں بھی بغیر کسی خوف کے متحرک کردار ادا کیا۔
انور منصور نے بتایا کہ دو روز قبل 9 فروری کو سپریم کورٹ میں ایک کیس کی سماعت جاری تھی کہ اچانک ایک خاتون کمرہ عدالت میں داخل ہوئیں اور انہوں نے چیف جسٹس کو اپنے کیس سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ میں غربت کے باعث وکیل کی فیس ادا نہیں کرسکتیں۔
کمرہ عدالت میں خاتون کی بات ختم ہوئی تو عاصمہ جہانگیر اپنی نشست پر کھڑی ہوئیں اور انہوں نے اعلان کیا کہ ’میں یہ کیس بغیر کسی معاوضے کے خاتون کی طرف سے لڑوں گی‘۔
دوسری جانب سینئر وکیل علی احمد کرد نے معروف قانون دان عاصمہ جہانگیر کے انتقال پر دلی دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ جمہوریت اور عوام کو شعور دینے کے حوالے سے عاصمہ جہانگیر نے بہت اہم کردار ادا کیا۔
اے آر وائی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے علی احمد کرد کا کہنا تھا کہ عاصمہ جہانگیر کے انتقال سے بڑا نقصان ہوا کیونکہ انہوں نے آزادی اظہار کے لیے بہت بڑا کردار ادا کیا۔
اُن کا کہنا تھا کہ وکلا تحریک کی بحالی ہو یا انصاف کی عدم فراہمی عاصمہ جہانگیر سب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتی تھیں، اُن کے انتقال سے پیدا ہونے والا خلا پر نہیں کیا جاسکتا۔
واضح رہے کہ کچھ دیر قبل معروف قانون دان دنیائے فانی سے کوچ کرگئیں، اُن کے انتقال پر تمام ہی مکاتبِ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگ افسردہ ہیں اور انہیں خراج تحسین پیش کررہے ہیں۔
سیاسی جماعت کے قائدین ہوں یا پھر قانون دان سب ہی عاصمہ جہانگیر کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے اُن کے تاریخی واقعات سنا رہے ہیں اور اُن کی جرات و بہادری پر خراج عقیدت بھی پیش کررہے ہیں۔
سفر زندگی
عاصمہ جہانگیر27 جنوری 1952ء کو لاہور میں پیدا ہوئی تھیں ‘ وہ پیشے کے لحاظ سے وکیل تھیں ۔ اس کے علاوہ انسانی حقوق کی علمبردار اور سماجی کارکن کی حیثیت سے بھی اپنی سماجی ذمہ داریاں نبھاتی رہیں۔
وہ سپریم کورٹ بار کی سابق صدر بھی رہ چکی ہیں۔ وہ دو کتابوں کی مصنف بھی ہیں۔انہیں 2010ءمیں ہلال امتیاز سے نوازا گیا جبکہ کئی انٹرنیشنل ایوارڈ بھی ملا۔
عاصمہ جہانگیر غیرمعمولی صلاحیتوں کی حامل شخصیت تھیں‘ وہ ابھی اکیس برس کی لاء اسٹوڈنٹ تھی کہ ان کے والد کو جنرل یحییٰ خان نے گرفتار کر کے جیل بھیج دیا، اپنے والد کی رہائی کے لیے وہ پاکستان کے ہر بڑے وکیل کے پاس گئیں لیکن ، سب نےکیس لینے سے انکار کردیا۔
انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ وہ اپنے والدکا کیس خود لڑیں گی ، عدالت نے اجازت دی اور اس بہادر بیٹی نے نہ صر ف اپنے والد کو رہا کرایا بلکہ ڈکٹیٹر شپ کو عدالت سے غیر آئینی قرار دلوا کر پاکستان کی آئینی تاریخ میں ایک عظیم کارنامہ انجام دیا اسی کارنامے کی وجہ سے ذوالفقارعلی بھٹو کو سول مارشل لاختم کرنا پڑا اور ملک کا آئین فوری طور پر تشکیل دیا گیا۔ ان کا یہ کیس پاکستان کی تاریخ میں عاصمہ جہانگیر کیس کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
عاصمہ جہانگیر ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے بانی اراکین میں شامل ہیں‘ اس کے علاوہ انہوں نے خواتین کے حقوق اور صنفی امتیاز پر مبنی قانون سازی کے خلاف مزاحمت کے لیے قائم کردہ ’ویمن ایکشن فورم‘ کی تشکیل میں بھی پیش پیش رہیں۔
انہیں طبعیت کی خرابی کی بنا پر لاہور کے نجی اسپتال منتقل کیا گیا ‘ جہاں ڈاکٹروں نے تشخیص کی کہ انہیں دل کا دورہ پڑا ہے۔ طبی امداد فراہم کی گئی تاہم وہ جانبر نہ ہوسکیں اور اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملیں۔
خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔