کراچی: جامعہ کراچی میں گزشتہ ہفتے کرکٹ کھیلنے پرمذہبی تنظیم کی جانب سے لڑکیوں کو مبینہ تشدد کا نشانہ بنانے پر طالبات کی جانب سے احتجاج کیا گیا ، تاہم مذہبی تنظیم اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم نے اس واقعے کی سرے سے نفی کی ہے۔
انتہا پسندانہ سوچ کی نفی کرنے کے لیے جامعہ کراچی کی آرٹس لابی کے باہر طالبات نے کرکٹ کھیل کر احتجاج کیا اورفوری انصاف کے نعرے لگائے۔ انہوں نے بینرز بھی اٹھا رکھے تھے جس میں پابندی کے خلاف نعرے درج تھے۔
طالبات کاموقف
جامعہ کراچی میں طالبات نے اے آروائی نیوزسے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جب ہم مخلوط نظامِ تعلیم میں پڑھ سکتے ہیں تو ہم ساتھ کھیل بھی سکتے ہیں۔
طالبات کا کہنا ہے کہ صحت مند سرگرمیوں سے روکنا اور انتہاپسند سوچ کو تھوپنانہ صرف غیراخلاقی بلکہ قابل مذمت عمل ہے۔
طالبات نے یہ بھی کہا کہ اگرکسی جماعت کو طلبہ و طالبات کے کسی عمل پراعتراض بھی ہے تو وہ انہیں کہہ سکتا ہے تاہم طالبات پرتشدد کا حق کسی کو حاصل نہیں ہے۔
اسلامی جمعیت طلبہ کا موقف
اے آروائی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم قاضی حسیب عالم نے اس قسم کے کسی بھی واقعے کے ہونے کی نفی کی ہے۔
قاضی حسیب کا کہنا تھا کہ اس دن دو طلبہ تنظیموں کا آپس میں ٹکراوٗ ہوا تھا تاہم طالبات کو تشدد کا نشانہ بنانے کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اسلامی جمعیت طلبہ کسی بھی طورطالبات کے کھیلوں پر پابندی لگانے کا اختیار نہیں رکھتی۔
اے آروائی نیوز کے ذرائع نے جامعہ کراچی کی انتظامیہ کے حوالے سے اپنی خبرکی تصدیق کی کہ طالبات کو جامعہ کراچی میں طالبات کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
واضح رہے کہ آج طالبات کی ایک بڑی تعداد نے جامعہ کراچی میں احتجاج کیا اوراسلامی جمعیت طلبہ کے خلاف نعرے بازی بھی کی۔
مذہبی طلبہ تنظیم کے ناظم نے اعتراف کیا کہ انہیں یا ان کی جماعت کے کسی ممبر کو کسی بھی صورت طلبہ و طالبات پر کسی قسم کی کوئی پابندی لگانے کا اختیارحاصل نہیں ہیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر ان کی جماعت کا کوئی فرد اس قسم کے کسی بھی واقعے میں ملوث پایا گیا تو اسے جماعت سے خارج کیا جائے گا۔
رجسٹرارجامعہ کراچی کا موقف
جامعہ کراچی کے رجسٹرار معظم علی نے اے آروائی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ طالبات پر تشدد کاواقعہ انتظامیہ کے علم میں ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ طالبات پرتشدد کے واقعے کی تحقیقات کے لئے سینئر پروفیسروں پر مشتمل تین رکنی کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے جو کہ واقعے کی تحقیقات کرکے اپنی رپورٹ پیش کرے گی۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ واقعے کے ذمہ داروں کے خلاف ضابطے کی خلاف ورزی کا ایکشن لیا جائے گا۔
عاصمہ جہانگیر کا موقف
انسانی حقوق کی رہنما اورسینئرقانون دان عاصمہ جہانگیر کا طالبات پرتشدد کرنے کے حوالے سے کہنا ہے کہ انتہا پسندانہ سوچ کے حامل افراد اپنی سوچ باقی ماندہ معاشرے پرزبردستی مسلط نہیں کریں۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ مذہب کے نام پرغنڈہ گردی پرانی بات ہے ان عناصرکوعورتوں پرتشدد کے بجائے اپنے نوجوانوں کی اصلاح کرنا چاہیے۔
انہوں نے طالبات کو مخاطب کرکے کہا کہ اگر آئندہ کوئی ایسا کرے تو ان کو بھی بلے سے اپنا دفاع کرنا چاہیئے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس قسم کے واقعات کی روک تھام ہونی چاہئے انہوں جمعیت کے ناظم سے مطالبہ کیا کہ اگر ان کی تنظیم اس واقعے میں ملوث نہیں ہے تو اس واقعے کی مذمت کرے۔