دمشق : شام میں بشار الاسد کا 24 سال کا اقتدار اپنے اختتام کو پہنچ گیا اور شامی صدر اپنی جان بچانے کیلیے چپ چاپ ملک چھوڑ کر فرار ہوگئے۔
شام میں اسد خاندان کی نصف صدی سے زائد سالوں پر محیط دورِ حکمرانی کا خاتمہ صرف 11 دن میں اس وقت ہوا جب اپوزیشن فورسز نے ایک بڑی کارروائی کے بعد دارالحکومت دمشق پر کنٹرول حاصل کرلیا۔
بشار الاسد حکومت کے خلاف اپوزیشن کے باغیوں کی حالیہ کامیاب کارروائیوں کے بعد سابق صدر ملک سے کیسے فرار ہوئے اورانہوں نے کس طرح اپنے منصوبے کی کسی کو بھی کانوں کان خبر نہ ہونے دی۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے روئٹرز کی رپورٹ کے مطابق بشار الاسد نے اپنی ملک سے روانگی کی منصوبہ بندی کو انتہائی رازداری میں رکھا اور صرف قریبی حلقے کو ہی ان کے فیصلے کا علم ہوا۔
اس حوالے سے ذرائع کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنے معاونین، عہدیداران اور حتیٰ کہ قریبی رشتہ داروں کو بھی اپنی حکمت عملی سے لاعلم رکھا۔
آخری اجلاس
اپنی روانگی سے کچھ گھنٹے قبل بشار الاسد نے وزارت دفاع میں تقریباً 30 فوجی اور سیکیورٹی حکام کو اجلاس میں بتایا کہ روس کی فوجی مدد آنے والی ہے اور انہیں لڑائی جاری رکھنے کا مشورہ دیا لیکن یہ محض ایک فریب نکلا۔
اس اہم اجلاس میں موجود ایک کمانڈر کے مطابق وہاں کسی کو بھی ان کے فرار کے ارادے کا قطعی علم نہیں تھا۔
بشار الاسد نے اپنے دفتر کے سربراہ کو بتایا کہ وہ دن کا کام ختم کر کے گھر واپس جا رہے ہیں، لیکن وہ اصل میں ہوائی اڈے کیلیے روانہ ہوئے تھے۔ حتیٰ کہ اس دوران انہوں نے اپنی مشیر بثینہ شعبان کو ایک تقریر لکھنے کے لیے اپنے گھر پر بلایا جب وہ وہاں پہنچیں تو ان کے گھر میں کوئی نہ تھا۔
عرب ریفارم انیشیٹو کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ندیم حوری نے رائٹرز کو بتایا کہ بشار الاسد نے آخری وقت تک کوئی مزاحمت نہیں کی اور نہ ہی اپنی افواج کو منظم کیا، انہوں نے اپنے حمایتیوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا۔
رپورٹ کے مطابق اتوار 8 دسمبر کی صبح بشار الاسد نے دمشق چھوڑا اور وہ ایک طیارے کے ذریعے جس کا ٹرانسپونڈر بند تھا، روسی اڈے حمیمیم پہنچے اور وہاں سے ماسکو کیلیے روانہ ہوگئے اس سے قبل ان کی بیوی اسماء اور تینوں بچے پہلے ہی روس پہنچ چکے تھے۔
شامی صدر کے فرار ہونے کی خبر پھیلتے ہی شامی باغیوں اور شہریوں نے صدارتی محل پر قبضہ کرلیا۔ ویڈیوز میں دکھایا گیا ہے کہ محل کے باورچی خانے میں چولہے پر کھانے پک رہے تھے اور ذاتی اشیاء جیسے خاندانی تصاویر کے البمز کمروں میں بکھرے ہوئے تھے۔
روس اور ایران کا مدد سے انکار
یہاں یہ بات بھی قبل ذکر ہے کہ روس اور ایران نے شامی صدر کی مدد سے انکار کردیا تھا، اس سے قبل سال 2015 میں روس نے شامی حکومت کی بھرپور مدد کی تھی لیکن اس بار انہوں نے صاف انکار کر دیا۔
28نومبر کو ماسکو کے دورے کے دوران بشارالاسد نے فوجی مداخلت کے لیے روسی حکام سے درخواست کی لیکن ان کی بات کو مسترد کر دیا گیا کیونکہ روسی حکام کی ترجیح یوکرین کی جنگ بن چکی تھی۔
دوسری جانب ایران کا رویہ بھی اس حوالے سے بہت محتاط رہا، ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی سے ملاقات کے دوران بشارالاسد نے اعتراف کیا کہ ان کی افواج انتہائی کمزور ہو چکی ہیں۔ تاہم، انہوں نے ایران سے فوجی مدد کی درخواست نہیں کی کیونکہ اس سے اسرائیل یا ایران پر حملے کا خطرہ تھا۔
یاد رہے کہ کریملن اور روسی وزارت خارجہ نے اس خٰبر پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا جبکہ ایرانی وزارت خارجہ فوری طور پر تبصرہ کرنے کے لیے دستیاب نہیں تھی۔
بحفاظت روانگی کیلیے آخری کوششیں
رپورٹ کے مطابق ماسکو نے شامی صدر کی حفاظت یقینی بنانے کے لیے کامیاب سفارتی کوششیں کیں، ترک اور قطری حکام نے حیات تحریر الشام (ایچ ٹی ایس) باغیوں سے مذاکرات کیے تاکہ اسد کی بحفاظت روانگی کو ممکن بنایا جاسکے۔
آخری مکالمہ کس سے کیا؟
صدر بشار الاسد کے وزیر اعظم محمد جلالی نے ان کے ساتھ آخری رابطے کے بارے میں روئٹرز کو بتایا کہ ہفتے کی رات ساڑھے دس بجے میں نے انہیں صورت حال کی سنگینی سے آگاہ کیا لیکن انہوں نے کہا کہ کل دیکھیں گے۔ یہ ان کا آخری جواب تھا لیکن اگلی صبح ان سے کسی قسم کا رابطہ ممکن نہ ہوسکا۔
بعد ازاں میڈیا کے ذریعے دنیا کو معلوم ہوا کہ شام کے صدر بشار الاسد ایک طیارے کے ذریعے نامعلوم مقام کی جانب روانہ ہوگئے اور طیارے کے اڑان بھرنے کے بعد کنٹرول ٹاور سے بھی اس کا رابطہ منقطع کردیا گیا تھا۔
ماسکو پہنچنے کے بعد سے جہاں انہیں سیاسی پناہ دی گئی ہے، بشار الاسد کو نہ دیکھا گیا اور نہ ہی ان کے بارے میں کوئی خبر سننے کو مل رہی ہے۔ اس طرح بشار الاسد کا 24 سالہ اقتدار اور ان کے خاندان کی 50 سالہ حکمرانی اختتام پذیر ہوئی۔