اسلام آباد: ایم کیو ایم رہنما ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس کے 3اہم برطانوی گواہ پاکستان نہ آسکے ، عدالت نے گواہان کو پیش کرنے کے لیے20 سے 25دن کی مہلت کی درخواست منظور کرلی ہے۔
تفصیلات کے مطابق اسلام آباد کی انسداددہشت گردی عدالت میں ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس کی سماعت ہوئی ، جس میں کیس کے 3 اہم برطانوی گواہ پاکستان نہ آسکے ، ایف آئی اے نے بتایا کہ مارچ کی وجہ سے گواہان کو پیش کرنے میں خطرہ تھا۔
جس پر عدالت نے گواہان کو پیش کرنے کے لیے20 سے 25 دن کی مہلت دینے کی درخواست منظور کرتے ہوئے 3برطانوی گواہان کو 2 دسمبر کو پیش کرنے کا حکم دے دیا، گواہان میں لندن پولیس کا چیف انسپکٹر ، ایک سارجنٹ اور ایک کانسٹیبل شامل ہیں۔
پراسیکیوٹر خواجہ امتیاز نے کہا کہ ملزمان کو بھی آج عدالت نہیں لایا جا سکتا ہے، پولیس اہلکار دھرنا ڈیوٹی پر مامور ہیں، جیل ٹرائل کانوٹیفکیشن چیف کمشنر واپس لے چکے ہیں، بعد ازاں عدالت نے مزید سماعت 2 دسمبر تک ملتوی کر دی۔
گذشتہ سماعت میں برطانوی حکومت سے ملنےوالے شواہد اسلام آباد کی انسداددہشت گردی عدالت میں پیش کئے گئے تھے، جن میں عمران فاروق قتل کی ویڈیو فوٹیج اور آلہ قتل کے ساتھ فرانزک رپورٹس شامل تھیں۔
مزید پڑھیں : عمران فاروق قتل کیس: برطانوی حکومت سے ملنے والے شواہد عدالت میں پیش
پراسکیوٹر ایف آئی اے نے عدالت کو بتایا تھا کہ ضمنی چالان کے مطابق 23 گواہان بیان قلمبند کروانا چاہتے ہیں۔ تین گواہان ذاتی حیثیت میں جبکہ 20 گواہان ویڈیو لنک پر بیان قلمبند کروائیں گے۔
خیال رہے برطانیہ نے عمران فاروق قتل کیس کے تمام شواہد پاکستان کو فراہم کرنے کے لئے رضامندی ظاہر کی تھی جبکہ پاکستان نے برطانیہ کو ملزمان کو سزائے موت نہ دینے کی یقین دہانی کرائی تھی۔
واضح رہے ڈاکٹر عمران فاروق 16 ستمبر 2010 کو لندن میں اپنے دفتر سے گھر جارہے تھے کہ انہیں گرین لین کے قریب واقع ان کے گھر کے باہر چاقو اور اینٹوں سے حملہ کرکے قتل کردیا گیا تھا، حملے کے نتیجے میں وہ موقع پر ہی جاں بحق ہو گئے تھے۔
برطانوی پولیس نے دسمبر 2012 میں اس کیس کی تحقیق و تفتیش کے لیے ایم کیو ایم کے قائد کے گھر اور لندن آفس پر بھی چھاپے مارے گئے تھے، چھاپے کے دوران وہاں سے 5 لاکھ سے زائد پاونڈ کی رقم ملنے پر منی لانڈرنگ کی تحقیقات شروع ہوئی تھی۔
بعد ازاں ایف آئی اے نے 2015ءمیں عمران فاروق کے قتل میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کے شبہ میں بانی متحدہ اور ایم کیو ایم کے دیگر سینئر رہنماوں کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا اور اسی سال محسن علی سید، معظم خان اور خالد شمیم کو بھی قتل میں ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا تھا۔