ادب کی شاہراہ پر سفر یقیناً کٹھنائیوں سے بھراہوتا ہے اور تقسیم سے قبل کے برصغیر میں کسی خاتون کے لیے تو کسی راہِ پرخار سے کم نہیں‘ تاہم امرتاپریتم ایک ایسا درخشندہ نام ہے جس نے اس مشکل سفرکو انجام دیا اوراپنے اس سفر کے حالات ’رسیدی ٹکٹ‘ کے نام سے اپنی آپ بیتی میں مرتب کیے۔
امرتا پریتم سن 1919 میں برٹش ہندوستان کے شہر گجرانوالہ میں پیدا ہوئیں جو کہ اب پاکستان کا حصہ ہے۔ سن 1947 میں ہونے والے بٹوارے کے بعد بھارت جاکر دہلی کو اپنا مسکن بنایا۔ انہیں پنجابی زبان کی نمائندہ شاعر اور ادیب کے طور شناخت کیا جاتا ہے اور ان کے کام کا دنیا کی کئی زبانوں میں ترجمہ کیا گیا ہے۔
اپنی ابتدائی زندگی کی یاداشتوں پر مشتمل کتاب ’رسیدی ٹکٹ کے عنوان سے انہوں نے سن 1976 میں مرتب کی تھی جسے 2017 میں جہلم سے تعلق رکھنے والے پبلشنگ ہاؤس ’بک کارنر‘ نے اردو میں شائع کیا ہے۔ کل 230 صفحات پرمشتمل یہ نایاب کتاب امرتا کی زندگی کی عکاسی کرنے والی انتہائی منفرد اور اہم تصاویر سے مزین ہے اوراس کی قیمت 600 روپے ہے جو کہ معیاری جلد بندی اورعمدہ کاغذ اوربہترین طباعت کے سبب انتہائی موزوں ہیں۔ اسے آن لائن بھی آرڈرکیا جاسکتا ہے۔
امرتا کا شماربرصغیر پاک و ہند کے صفِ اول کے پنجابی شعراء اورادیبوں میں ہوتا ہےاوران کے قارئین کی تعداد بلاشبہ کروڑں میں ہے جو بذاتِ خود ایک اعزاز ہے جو کہ کم ہی کسی مصنف کو نصیب ہوتا ہے‘ امرتا پریتم صاف گو اور بے باک شخصیت کی مالک تھیں اورانہوں نے برصغیرپاک و ہند کے اس مشکل معاشرے میں اپنی جگہ بنائی جب بالخصوص متوسط طبقے سے تعلق رکھ کسی خاتون کے لیے ایسا مقام حاصل کرلینا جوئے شیرلانے کے مترادف تھا۔
امرتا پریتم کی شخصیت اور قلم پربرصغیر بالخصوص پنجاب کی تقسیم کا زخم انتہائی گہرا تھا اور یہ اُن کی تقسیم کے بعد آنے والی نظموں اور ناولوں میں گاہے بگاہے اپنی بھرپور چھب دکھلاتا رہا جس کی سب سے بہترین مثال پنجابی زبان کے عظیم شاعر اور صوفی بزرگ حضرت وارث شاہ کو مخاطب کرکے کہی گئی نظم ہے جو کہ ان کی شناخت سمجھی جاتی ہے۔
اج آکھاں وارث شاہ نوں کتوں قبراں وچوں بول
اتے اج کتابِ عشق دا کوئی اگلا ورقہ پھول
اک روئی سی دھی پنجاب دی توں لکھ لکھ مارے وین
اج لکھاں دھیاں روندیاں، تینوں وارث شاہ نوں کہن
اُٹھ دردمنداں دیا دردیا، اُٹھ تک اپنا پنجاب
اج بیلے لاشاں وچھیاں تے لہو دی بھری چناب
رسیدی ٹکٹ کے بارے میں
امرتا اپنی زندگی میں ایک بے باک ‘ نڈر اور صاف گو شخصیت کے طور پر جانی جاتی تھیں اور یہی لہجہ انہوں نے اپنی پہلی آپ بیتی ’رسیدی ٹکٹ‘ مرتب کرتے ہوئے اپنایا ہے اور اس میں وہ تمام باتیں بھی تحریر کی ہیں جن کا اعتراف شائد اس کتاب کے شائع ہونے کے اکتالیس سال بعد کی عورت بھی کرنے سے گریزکرتی ہے۔
امرتا کی زندگی دکھوں سے عبارت تھی اور یہی دکھ ان کی نظموں اورناولوں سےجھلکتے ہیں اور جب وہ اپنی آپ بیتی لکھنے بیٹھیں تو گویا دل چیرکررکھ دیا اور اپنے حزیں قلب پر لگا ہر ایک داغ اپنے قارئین کے سامنے کردیا کہ دنیا جان لے کہ وہ مصنف اورشاعرجوان کے غموں کو الفاظ کا جامہ پہنا کر دنیا کے سامنے لاتی ہے اور انہیں نئے سرے سے جینےکا حوصلہ دیتی ہے اس کی اپنی زندگی کتنے دکھوں سے عبارت ہے۔
رسیدی ٹکٹ کو امرتا نے آپ بیتی لکھنے کے مروجہ طریقہ کار سے انحراف کرتے ہوئے خیالات کے بہاؤ کو ضبطِ تحریر کیا ہے اور یہ کمال ’پنجر‘ جیسے معروف ناول کی مصنف ہی دکھا سکتی تھیں۔ا مرتا کی آب بیتی ہمیں تقسیم کے قبل کے پنجاب میں لے جاتی ہے جہاں کا ایک مخصوص معاشرتی نظام تھا اور ہم امرتا کے ساتھ اس سفر میں شریک ہوکر گجرانوالہ میں آباد سکھوں کی بود وباش جینے لگتے ہیں اورجس لمحے کمسن امرتا کے لبوں سے رب العزت کے حضور یہ دعانکلتی ہے کہ’ میری ماں کو نا مارنا‘‘ – کہتے ہیں کہ بچوں کی دعائیں مستجاب ہوتی ہیں لیکن اس دن امرتا کی دعا عرش سے ٹکرا کر لوٹ آتی ہے اورماں مرجاتی ہے۔ اس لمحے امرتا کے ساتھ ہم بھی اپنے اندر کچھ ٹوٹتا ہوا محسوس کرتے ہیں اوردل میں ایسا کرب اٹھتا ہے جسے بیان کرنا انہی کا خاصہ ہے۔
امرتا کی یہ داستاں درحقیقت ان کی زندگی پر سب سے زیادہ اثر انداز ہونے والے تین مردوں کی کہانی ہے۔ ان کے پتا نند سادھو‘ اردو میں پیغمبرِسخن کا درجہ رکھنے والے شاعر ساحر لدھیانوی جس سے امرتا نے محبت کی اوران کی زندگی کا ہر اہم لمحہ ان کے ساتھ جینے والے امروز جنہوں نےامرتا پریتم سے محبت کی۔
آپ بیتی آگے بڑھتی ہے اور امرتا جوانی کی سیڑھی پر چپ چاپ قدم رکھ دیتی ہیں۔ ان کی زندگی میں ایسا کوئی سانحہ نہیں ہوتا جو کہ عموماً جوانی کی پہلی دہلیز پرقدم رکھتے ہی لڑکیوں کو پیش آتا ہے لیکن شاید ایسا بھی نہیں‘ جو سانحے لڑکیوں پرجوانی میں پیش آتے ہیں وہ تو بہت کم عمری میں امرتا پربیت چکا تھا اوروہ اپنے تصوراتی سایے کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کرچکی تھیں اور پھر نہ نند سادھو رہے‘ نا ساحر کا ساتھ ملا اور نہ ہی امروز ہمیشہ
ساتھ رہ سکے لیکن بقول ان کے وہ تصوراتی سایہ ہمیشہ ان کے ساتھ رہا’’ کبھی قلم کی صورت میں اور کبھی خداکی طرح واحدسے بے حد ہوتا‘‘۔ یوں امرتا ایک مختلف شخصیت میں ڈھلنا شروع ہوگئیں جس کا اثر بعد میں ان کی آنے والی تحاریر میں بھی نظرآیا۔
نوجوانی کی اس سرحد پر امرتا کی زندگی کے دو اہم واقعات پیش آئے۔ ماں کی وفات کے کچھ عرصے بعد ان کے والد انہیں لے کر لاہور منتقل ہوگئے تھے اورعمر کی سولہویں سیڑھی پر امرتا کی نظموں کی پہلی کتاب امرت لہریں منظرِ عام پر آتی ہے اور اسی سال وہ اپنے بچپن کے منگیتر پریتم سنگھ کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوکر امرتا کور سے امرتا پریتم ہوجاتی ہیں۔ اور 1960تک جاری رہنے والے ناکام رشتے میں کوئی تو ایسی بات تھی کہ امرتا نے ساری زندگی اپنے نام کے ساتھ جڑے پریتم کو ہٹانا گوارانہ کیا اور اسی نام کے ساتھ امر ہوگئیں۔
ہندی زبان کے نامورادیب خشونت سنگھ نے کبھی امرتا کو کہا تھا کہ ’’تمہاری سوانح کا کیا ہے‘
بس ایک حادثہ !لکھنے بیٹھوتورسیدی ٹکٹ کی پشت پر درج ہوجائے‘‘۔
امرتا نے کہیں بھی اپنے اورساحر کے رشتے کا ذکر مفصل انداز میں نہیں کیا لیکن جب آپ اس سفرمیں ان کے ہمرکاب ہوتے ہیں تو گویا ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کی ہربات ساحر کی بات ہے اور زندگی میں جو بھی کچھ ہے بس اسی ایک شخصیت سے غماز ہے۔ امرتا اور ساحر دوست رہے اور ان کی داستانِ محبت کا شمار دنیائے ادب کی عظیم داستانوں میں ہوتا ہے ۔ ایک ایسا رشتہ جیسے چنا ب کو دو کنارے جو ساتھ تو چلتے ہیں لیکن ملتے نہیں ہیں۔ امرتاساحر کے سحر میں مبتلا رہ کر زندگی کو گویا ایک خواب کی سی کیفیت میں گزارتی ہیں اور ان کی یہ کیفیت رسیدی ٹکٹ کو پڑھتے وقت کہیں کہیں انتہائی شدت سے ابھر کر سامنے آتی ہے‘ بقول جون ایلیاء۔۔
میں جرم کا اعتراف کرکے
کچھ اورہے جو چھپا گیا ہوں
ایسا لگتا ہے کہ جیسے امرتا اپنے اورساحر کے بارے میں جب بھی انتہائی بے باک انداز میں اپنے جذبات کا اظہار کررہی ہوتی ہیں تو درحقیقت کچھ ایسا ہے کہ جووہ سب کچھ بتانے کے باوجود چھپارہی ہیں۔ شاید نارسائی کے اس درد کو ساحر کی جانب سے انہیں ملا۔ رسیدی ٹکٹ میں امرتا رقم طراز ہیں کہ ’’کہ 1957 میں جب اکادمی ایوارڈ ملا، فون پرخبر سنتے ہی سر سےپاؤں تک میں تاپ میں جھلس گئی۔ خدایا! یہ سنیہڑے میں نے کسی انعام کے لیے تو نہ لکھے تھے۔ جس کے لیے لکھےتھے اس نےنہ پڑھے۔ اب کل عالم بھی پڑھ لےتو مجھے کیا‘‘۔
امروز کہتے ہیں کہ ’’ یہ جانتے ہوئے بھی کہ امرتا ساحر سے کتنا پیار کرتی ہے۔ میں امرتا سے پیار کرتا ہوں، اس محبت میں کبھی کمی نہیں آئی۔ میں اسے اسکوٹر پر بٹھا کراسٹوڈیو لے جاتا تو وہ میرے پیچھے بیٹھی میری کمر پر ساحر ساحرلکھتی رہتی‘‘۔
رسیدی ٹکٹ میں ہمیں امروز کی شخصیت ایک ایسے سایہ دار شجر کی سی نظر آتی ہے جس نے حالات کی تلخ دھوپ میں جھلستی ‘ زمانے سے نبرد آزما تنہا امرتا کو سانس لینے کی مہلت فراہم کی۔ امرتا اپنی داستان میں امروز کی شکرگزار نظرآتی ہیں جنہوں نے ان کا ہرطرح کے حالات میں ساتھ دیا اورامرتا کو ان کے پورے سچ کے ساتھ قبول کیا۔ اور اس بات کا اعتراف امرتا اس طرح کرتی ہیں کہ ان کی زندگی کے تین مواقع جب انہوں نے اپنے اندرکی خالص عورت کو مکمل طریقے سے محسوس کیا ایک وہ تھا ’’جب اپنے اسٹوڈیومیں بیٹھے ہوئے امروز نے ۔۔۔ اپنا پتلا سابرش اپنے کاغذ سے اٹھا کرایک بارسرخ رنگ میں ڈبویاتھا‘ اور پھراٹھ کراس برش کے ساتھ میری پیشانی پرایک بندیا لگادی تھی‘‘۔
پنجابی ادب یقیناً امرتا کا شکرگزار ہوگا لیکن پنجابی زبان کے ادیب امرتا کے بلند قامت سے خوفزدہ نظر آتے تھے جس کا اظہار اخبارات میں ان کے خلاف لکھے جانے والے مضامین کے ذریعے اور ان کی کامیابیوں کی راہ مسدود کرنے کی کوشوں سے کیا جاتا رہا۔ امرتا کو اپنے معاصرین کی جانب سے درپیش اس صورتحال کا ہمیشہ کا دکھ رہا جس کا اظہار انہوں نے اپنی سوانح حیات میں اس قدر کیا ہے کہ بعض مقامات پریہ تکرار محسوس ہونے لگتا ہے۔ لیکن یقیناً جس صورتحال سے امرتا گزری ہوں گی ان لمحات کی تلخی کا آپ بیتی پر مرتب کرتے وقت قلم زد ہونا کوئی اچھنبے کی بات بھی نہیں ہے۔
الغرض رسیدی ٹکٹ پنجابی زبان کی شہرہ آفاق شاعر اور ادیب امرتا کی داستانِ حیات سے زیادہ ان کی زندگی کو ان کے ساتھ جینے کاسفرہے جس کے لیے صاحبِ دل ہونا بہت ضروری ہے۔ رسیدی ٹکٹ ہمیں برطانوی ہندوستان سے تقسیم کے بعد کا بھارت دکھاتی ہے۔ ہمیں بھارت میں لکھے جانے والے پنجابی ادب اور اسکے ادیبوں اور شاعروں سے آگاہ کرتی ہے اور سب سے بڑھ کریہ کتاب ہمیں اس امرتا سے ملواتی ہے جو سربسر اپنی اس مختصر نظم کا مجسم روپ ہیں۔
اک درد سی۔۔۔۔
جو سگریٹ دی طرح
میں چپ چاپ پیتا اے
صرف کجھ نظماں ہن
جو سگریٹ نالوں
میں راکھ وانگن جھاڑیاں
امرتا پریتم کے بارے میں
بھارت میں وہ ساہتیہ اکیڈمی پرسکار پانے والی پہلی خاتون تھیں۔ بھارت کا صدارتی ایوارڈ پدم شری حاصل کرنے والی بھی وہ پہلی پنجابی خاتون تھیں۔ اُن کی تحریروں کا ترجمہ انگریزی کے علاوہ فرانسیسی جاپانی اور ڈینش زبانوں میں بھی ہوا ہے اور اگرچہ وہ سوشلسٹ بلاک سے نظریاتی ہم آہنگی نہیں رکھتی تھیں لیکن مشرقی یورپ کی کئی زبانوں میں اُن کے کلام کا ترجمہ کیا گیا۔
امریکہ میں مشی گن سٹیٹ یونیورسٹی کے ماہنامے ’محفل‘ نے امرتا پریتم ‘ پر اپنا ایک خصوصی نمبر بھی شائع کیا تھا۔ دہلی، جبل پور اور وِشو بھارتی یونیورسٹی کی
طرف سے انھیں ڈاکٹر آف لٹریچر کی تین اعزازی ڈِگریاں دی گئیں اور 1982 میں انھیں پنجابی ادب کی عمر بھر کی خدمات کے صلے میں اعلیٰ ترین گیان پیتھ ایوارڈ بھی دیا گیا۔
چھ دہائیوں سے بھی زیادہ طویل کیرئر میں امرتا نے 28 ناول تحریر کیے‘ 18 نثری مجموعے شائع ہوئے’ پانچ مختصرکہانیوں کے مجموعے اور 16 متفرق نثری مجموعے قرطاس کی نذرکیے۔
پنجابی کی معروف شاعر اور ادیب امرتا پریتم 2006 میں 86 سال کی عمر میں دہلی میں انتقال کرگئیں تھیں لیکن ان چھوڑا ہوا ادبی ورثہ‘ جب تک زبان وادب زندہ ہے انہیں زندہ رکھے گا۔