جس قید خانے میں صبح ہر روز مسکراتی ہو، جہاں شام ہر روز پردۂ شب میں چھپ جاتی ہو، جس کی راتیں کبھی ستاروں کی قندیلوں سے جگمگانے لگتی ہوں، کبھی چاندنی کی حسن افروزیوں سے جہاں تاب رہتی ہوں، جہاں دوپہر ہر روز چمکے، شفق ہر روز نکھرے، پرند ہر صبح و شام چہکیں، اسے قید خانہ ہونے پر بھی عیش و مسرت کے سامانوں سے خالی کیوں سمجھ لیا جائے؟
مصیبت ساری یہ ہے کہ خود ہمارا دل و دماغ ہی گم ہو جاتا ہے۔ ہم اپنے سے باہر ساری چیزیں ڈھونڈتے رہیں گے، مگر اپنے کھوئے ہوئے دل کو کبھی نہیں ڈھونڈیں گے۔ حالانکہ اگر اسے ڈھونڈ نکالیں تو عیش و مسرت کا سارا سامان اسی کوٹھڑی کے اندر سمٹا ہوا مل جائے۔ ایوان و محل نہ ہوں تو کسی درخت کے سائے سے کام لے لیں، دیبا و مخمل کا فرش نہ ملے تو سبزۂ خود رو کے فرش پر جا بیٹھیں، اگر برقی روشنی کے کنول میسر نہیں ہیں تو آسمان کی قندیلوں کو کون بجھا سکتا ہے۔ اگر دنیا کی ساری مصنوعی خوشنمائیاں اوجھل ہو گئیں ہیں تو ہو جائیں، صبح اب بھی ہر روز مسکرائے گی، چاندنی اب بھی ہمیشہ جلوہ فروشیاں کرے گی، لیکن اگر دل زندہ پہلو میں نہ رہے، تو خدارا بتلائیے اس کا بدل کہاں ڈھونڈیں؟ اس کی خالی جگہ بھرنے کے لیے کس چولھے کے انگارے کام دیں گے۔
میں آپ کو بتلاؤں اس راہ میں میری کامرانیوں کا راز کیا ہے؟ میں اپنے دل کو مرنے نہیں دیتا۔ کوئی حالت ہو، کوئی جگہ ہو، اس کی تڑپ دھیمی نہیں پڑے گی، میں جانتا ہوں کہ جہاں زندگی کی ساری رونقیں اسی میکدۂ خلوت کے دم سے ہیں۔ یہ اجڑا اور ساری دنیا اجڑ گئی۔
(انشاء پرداز مولانا ابوالکلام آزاد کی کتاب غبارِ خاطر سے اقتباس)