اردو کے کئی بڑے اور معروف شعرا کا کلام یا وہ اشعار جنھیں ضرب المثل کا درجہ حاصل ہوا، کسی تذکرہ نویس کی غلطی، یا ناقص معلومات کے سبب کسی دوسرے شاعر کے نام سے مشہور ہوگئے اور یہ اشعار آج بھی زباں زدِ عام ہیں، مگر اصل شاعر کا نام کسی کو معلوم نہیں بلکہ یہ ایک بحث ہے اور اس پر بھی مصنّفین اور ادبی محققین نے بہت کچھ لکھا ہے۔
یہاں ہم آپ کو مولانا محمد حسین آزاد جیسے صاحبِ طرز ادیب کی کتاب ’’آبِ حیات‘‘ میں مرزا رفیع سودا سے متعلق رقم ایک واقعہ سنارہے ہیں جو ایسے ہی ایک شعر اور شاعر کے تذکرے پر مبنی ہے۔ ملاحظہ کیجیے:
’’ایک دن سودا مشاعرے میں بیٹھے تھے۔ لوگ اپنی اپنی غزلیں پڑھ رہے تھے۔ ایک شریف زادے کی بارہ تیرہ سال کی عمر تھی، اس نے غزل پڑھی، مطلع تھا۔
دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
گرمی کلام پر سودا بھی چونک پڑے۔ پوچھا۔ یہ مطلع کس نے پڑھا؟ لوگوں نے کہا حضرت، یہ صاحبزادہ ہے، انہوں نے بھی بہت تعریف کی، بہت مرتبہ پڑھوایا اور کہا کہ لڑکے! جوان ہوتے نظر نہیں آتے۔ خدا کی قدرت کچھ دنوں میں لڑکا جل کر مر گیا۔‘‘
بعض ناقدین نے اس سارے قصے کو آزاد کا طبع زاد افسانہ کہا ہے۔ ان کے بقول یہ شعر اس لڑکے کا ہے ہی نہیں بلکہ یہ پنڈت مہتاب رائے تاباں دہلوی کے شعر کی ترقی یافتہ شکل ہے۔ تاباں، میر درد کے ہم عصر تھے۔ بعض تذکرہ نویس تاباں، بعض تائب اور بعض تاب لکھتے ہیں۔ مختار الدین احمد، تائب کو درست کہتے ہیں۔ ایک کتاب ’’آثار شعرائے ہنوز‘‘ مطبوعہ 1886ء میں تاباں اور تاب کو الگ الگ شاعر کہا گیا ہے۔ دونوں کو برہمن لکھا ہے۔ تاب کشمیری الاصل تھے اور ان کا نام مہتاب رائے تھا۔ تاباں کے متعلق جن سے یہ شعر حقیقتاً منسوب ہے، لکھا ہے۔ ’’پنڈت مہتاب رائے بارہ برس کے تھے کہ انہوں نے میر درد کے مشاعرے میں آکر غزل پڑھی۔ مطلع یہ ہے:
’’شعلہ بھڑک اٹھا میرے اس دل کے داغ سے… الخ‘‘