یکم مئی 1993 کو قتل کیے گئے ایم کیوایم کے چیئرمین اور معتدل رہنما عظیم طارق کی آج 24 ویں برسی ہے تاہم اب تک اس قتل کی گتھی سلجھ نہ سکی اور نہ اصل ملزمان سامنے آسکے۔
عظیم طارق الطاف حسین کے حکم پر روپوش ہوئے
عظیم احمد طارق کراچی کی سیاست میں دھیمے مزاج اور شرافت کا عملی نمونہ تھے وہ زمانہ طالب علمی سے ہی بانی ایم کیو ایم کے ساتھ منسلک ہو گئے تھے اور انہی کے حکم پر 1992 میں فوجی آپریشن کے آغاز کے بعد روپوش ہوگئے۔
روپوشی ختم کرتے ہوئے قائد متحدہ سے قیادت چھوڑنے کا مطالبہ
تاہم چند ماہ بعد ہی ایک دن اچانک منظرعام پر آکر بانی ایم کیو ایم سے قیادت چھوڑنے کا مطالبہ کردیا تھا۔
ایم کیو ایم میں تین دھڑے بن گئے
عظیم احمد طارق نے یہ پریس کانفرنس معروف صنعت کار اور ایم کیو ایم رکن اسمبلی حاجی شفیق الرحمن کے گھر پر کی تھی جہاں دو اور اراکین اسمبلی بھی موجود تھے اور یوں ایم کیوایم جو حقیقی کے وجود میں آنے کے بعد اب تک دو دھڑوں میں تقسیم ہوچکی تھی اب اس کی تیسری شاخ بھی کھل گئی تھی۔
الطاف حسین چھ ماہ تک پارٹی امور سے دور رہے
اِدھر ایم کیو ایم کے بانی پاکستان میں موجود سینیٹر اور بزرگ سیاست دان اشتیاق اظہر کے ذریعے تنظیمی معاملات چلا رہے تھے تاہم عظیم احمد طارق کی جانب سے روپوشی ختم کرنے اور قیادت سے سبک دوشی کے مطالبے کے بعد بانی ایم کیو ایم نے قیادت چھوڑ دی اورکوئی 6 ماہ تک پارٹی امور سے دور رہے۔
متعدد اراکین اسمبلی عظیم طارق سے جا ملے
اس دوران اراکین اسمبلی کی اچھی خاصی تعداد عظیم طارق سے جا ملی جب کہ تنظیمی سطح پر کئی ذمہ داران بھی ’’سیف ہاؤس‘‘ پہنچنا شروع ہو گئے تاہم جلد ہی معاملات عظیم احمد طارق کے ہاتھوں سے نکلنا شروع ہو گئے اور بانی ایم کیو ایم نے دوبارہ تنظیم کی باگ ڈور سنبھال لی۔
عظیم طارق اپنے مہمانوں کے ہاتھوں قتل
ادھر ایم کیو ایم حقیقی کا دعویٰ تھا کہ عظیم احمد طارق ان کے ساتھ بھی رابطے میں ہیں اور جلد آفاق احمد کے ساتھ جا ملیں گے تاہم ایسا ہو نہ سکا اور عظیم احمد طارق اپنے گھر آئے مہمانوں کے ہاتھوں رات گئے قتل کر دیئے گئے اور ان کی لاش گھر کے ڈرائنگ روم سے برآمد ہوئی۔
عظیم احمد طارق کے قتل کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی اور لوگوں کی بڑی تعداد ان کی رہائش گاہ پہنچ گئی جہاں ان کی نماز جنازہ ادا کی گئی۔
تجہیزو تکفین ایم کیو ایم حقیقی کے زیر نگرانی
نماز جنازہ میں ایم کیو ایم کی معطل مرکزی کمیٹی کے روپوش رہنماؤں ایس ایم طارق، طارق جاوید اور طارق محمود سمیت ہزاروں کی تعداد میں کارکنان نے شرکت کی تاہم نماز جنازہ اور تجہیز و تکفین ایم کیو ایم حقیقی کے زیرنگرانی تکمیل پائی۔
جائے وقوع سے شواہد جمع، تحقیقات شروع
پولیس نے جائے وقوعہ سے شواہد اکٹھے کرکے قتل کی تحقیقات کا آغاز کردیا اورغالب گمان یہی ظاہر کیا کہ اس قتل کے پیچھے بانی ایم کیو ایم کا ہاتھ ہو کیوں کہ وہ عظیم طارق کو اپنی شہرت اور سیاست کے لیے خطرہ محسوس کرتے تھے اور اپنا مستقبل تاریک دیکھ رہے تھے۔
عظیم طارق کے اہل خانہ بیرون ملک منتقل
قتل کے بعد عظیم احمد طارق کے اہل خانہ بیرون ملک منتقل ہوگئے اور قتل کی تحقیقات سرد خانے کی نذر ہو گئیں، سال 1992ء سے جاری فوجی آپریشن بھی ختم ہو گیا اور اس کے بعد ہونے والا پولیس آپریشن بھی ختم ہوگیا لیکن اس قتل کیس کی فائل سے گرد نہ جھڑی۔
حالیہ رینجرز آپریشن میں بھی عظیم طارق قتل کیس سرد خانے کی نذر
یہاں تک کہ سال 2013ء کے بعد کراچی میں شروع ہونے والے رینجرز آپریشن میں بھی اس قتل کیس میں کوئی پیش رفت نہ ہو سکی اور آج ان کے چاہنے والے اور عزیز و اقرباء 24 ویں برسی اسی امید کے ساتھ منا رہے ہیں کہ شاید اگلی برسی سے قبل اس خون ناحق کے ذمہ دار نقاب ہوسکیں اور شاید اہل خانہ کو انصاف میسر آسکے۔
اس قتل کے بہت سے راز میرے سینے میں دفن ہیں، فاروق ستار
ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ فاروق ستار نے اے آر وائی کے معروف ٹاک شو الیونتھ آور میں میزبان وسیم بادامی سے بات کرتے ہوئے اس قتل کے حوالے سے انکشاف کیا تھا کہ اس قتل کے حوالے سے بہت سے راز میرے سینے میں دفن ہیں جو شاید درست وقت آنے پر یا جب کوئی کتاب لکھ رہا ہوں گا تو ضرور ذکر کروں گا۔
مجھے اور عظیم بھائی کو کہا گیا رات گھر پر نہ سوئیں مگر وہ نہ مانے اور قتل ہوگئے
انہوں نے کہا تھا کہ عظیم احمد طارق کو بتادیا گیا تھا کہ انہیں قتل کیا جا سکتا ہے اس لیے گھر پر نہ سوئیں اور یہی پیغام میرے لیے بھی تھا اسی لیے میں اس رات گھر پر نہیں سویا لیکن عظیم بھائی اپنے گھر پر ہی سوئے اور قتل کر دیے گئے۔
فاروق ستار کا کہنا تھا کہ یہاں میں سوال کرتا ہوں کہ جن لوگوں نے انہیں قتل کی سازش سے آگاہ کیا تھا وہ ان کی حفاظت کرنے سے کیوں قاصر تھے؟
قتل کی سازش میں مصطفیٰ کمال شریک تھے، آفاق احمد کا دعویٰ
دوسری جانب ایم کیو ایم کے چیئرمین آفاق احمد نے ایک نجی پروگرام میں دعویٰ کیا تھا کہ عظیم احمد طارق کے قتل کے موقع پر سابق ناظم کراچی اور چیئرمین پاک سرزمین پارٹی مصطفی کمال ان کے گھر پر موجود تھے اور انہوں نے قاتلوں کے لیے دروازے کی کنڈی کھولی تھی۔
عظیم بھائی کے گھر تو کیا اطراف میں بھی نہیں گیا، مصطفیٰ کمال
تاہم مصطفی کمال نے اے آر وائی نیوز کے پروگرام ’’آف دی ریکارڈ‘‘ میں میزبان کاشف عباسی کے سوال کا جواب دیتے ان الزامات کی تردید کردی تھی اور کہا تھا کہ میں کبھی عظیم بھائی کے قریب نہیں رہا اور ان کے گھر اندر تو کیا اطراف میں بھی کبھی نہیں گیا لہذا یہ الزامات بے بنیاد اور من گھڑت ہیں۔
عظیم طارق کے اہل خانہ کو آج تک انصاف نہ ملا
سیاسی رفیقوں اور پرانے دوستوں کے دعوے اور انکشافات اپنی جگہ لیکن اب تک عظیم طارق کے اہل خانہ کو انصاف نہ ملنا جہاں ہمارے تفتیشی نظام میں جھول اور قانونی سقم کو ظاہر کرتا ہے وہیں معاشرے کی مجموعی بےحسی کے حوالے سے بھی سوال اٹھاتا ہے۔