بدھ, فروری 5, 2025
اشتہار

فنِ قوالی میں بے مثال عزیز میاں قوال کا تذکرہ

اشتہار

حیرت انگیز

پاکستان میں قوالی اور صوفیانہ کلام کے گائیکوں میں عزیز میاں نے لازوال شہرت اور بے پناہ مقبولیت حاصل کی۔ عزیز میاں ایک قابل، تعلیم یافتہ اور متعدد زبانوں پر عبور رکھنے والے ایسے قوال تھے جو اپنے مخصوص انداز میں سماں باندھ دیتے تھے۔ ان کے مداح پاکستان ہی نہیں دنیا بھر میں موجود ہیں۔

عزیز میاں کا انتقال 6 دسمبر 2000ء کو ہوا۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ ان کا اصل نام عبدالعزیز تھا۔ کہتے ہیں کہ لفظ میاں ان کا تکیۂ کلام تھا جو بعد میں ان کے نام ہی کا حصّہ بن گیا۔ یوں وہ عزیز میاں مشہور ہوئے۔

عالمی شہرت یافتہ قوال عزیز میاں نے علّامہ اقبال، قتیل شفائی اور دیگر شعرا کے صوفیانہ کلام کو اپنے مخصوص طرزِ گائیکی سے سامعین میں مقبول بنایا۔ وہ گانے کے لیے کلام کا انتخاب بہت سوچ سمجھ کر کرتے تھے۔ صوفیانہ کلام کے ساتھ خمریات اور عشقِ حقیقی پر مبنی اشعار کو عزیز میاں نے اپنی آواز میں جاودانی عطا کی اور کئی معروف اور غیر معروف شعرا کی شاعری کو زندگی بخشی۔

عزیز میاں تعلیم یافتہ اور وسیعُ‌ المطالعہ شخص تھے۔ جامعہ پنجاب لاہور سے فارسی، اردو اور عربی میں ایم اے کرنے والے عزیز میاں فلسفہ میں گہری دل چسپی رکھتے تھے۔ وہ فلسفہ کے طالبِ علم ہی نہیں تھے بلکہ فلسفیانہ مباحث میں حصّہ بھی لیتے اور دلیل و منطق کے ساتھ اپنی فکر کا اظہار کرتے۔

پاکستان ہی نہیں‌ انھیں دنیا بھر میں قوالی کی محافل میں پرفارم کرنے کے لیے مدعو کیا جاتا تھا۔ بیرون ملک غیر مسلم بھی عزیز میاں کو سننے کے لیے جمع ہوتے۔ انھوں نے بیرونِ ملک اپنے منفرد انداز میں حمد و نعت کے ساتھ مختلف صوفیانہ کلام گایا اور حاضرین سے داد و ستائش پائی۔ عزیز میاں کی آواز نہایت بارعب اور ان کا انداز دل کش تھا۔ وہ اس فن کے شہنشاہ کہلائے۔

17 اپریل 1942ء کو دہلی میں‌ پیدا ہونے والے عزیز میاں نے قوالی کے فن اور اس کی باریکیوں کو سمجھنے کے لیے معروف استاد عبدالوحید کی شاگردی اختیار کی اور اپنے منفرد اور والہانہ انداز کے سبب اپنی الگ پہچان بنائی۔ ان کی قوالیاں سننے والوں پر آج بھی وجد طاری کر دیتی ہیں۔ ‘‘اللہ ہی جانے کون بشر ہے، یا نبی یا نبیﷺ۔’’ وہ کلام تھا جو عزیز میاں کی شہرت اور مقبولیت کا سبب بنا۔ حمدیہ اور نعتیہ کلام کے علاوہ عزیز میاں کی آواز میں کئی منقبتیں بھی سامعین میں بہت مقبول ہیں۔

نعتیہ کلام کی بات کریں تو ‘‘نہ کلیم کا تصور، نہ خیالِ طورِ سینا، میری آرزو محمدﷺ، میری جستجو مدینہ’’ وہ نعت ہے جو عزیز میاں کی آواز میں ہمیشہ نہایت عقیدت سے سنی جاتی رہی ہے اور قلب و روح کی تسکین کا سامان کرتی ہے۔

عزیز میاں ایران کے شہر تہران میں سرکاری سطح‌ پر ایک محفل میں مدعو تھے جہاں ان کا انتقال ہوا۔ وصیت کے مطابق ان کی تدفین ملتان شہر میں ان کے مرشد کے پہلو میں کی گئی۔

حکومتِ پاکستان نے عزیز میاں قوال کو 1989ء میں تمغائے حسنِ کارکردگی سے نوازا تھا۔

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں