تازہ ترین

پاکستان نے انسانی حقوق سے متعلق امریکا کی رپورٹ مسترد کردی

اسلام آباد: پاکستان نے امریکی محکمہ خارجہ کی انسانی...

وزیراعظم کی راناثنااللہ اور سعد رفیق کو بڑی پیشکش

اسلام آباد: وزیراعظم شہباز شریف اور اسحاق ڈار نے...

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پروٹوکول واپس کر دیا

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے چیف...

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

معروف ادیب، شاعر اور طنز و مزاح نگار کے ‘انجام’ کی مختصر کہانی

عزیز نیسِن (Aziz Nesin) کو جدید ترکی ادب میں شاعر، ڈراما نویس اور طنز و مزاح نگار کے طور پر شناخت کیا جاتا ہے۔ ان کی تحریریں‌ سماج کا آئینہ تھیں۔

6 جولائی 1995ء کو اس مشہور اور اپنے نظریات اور خیالات کی وجہ سے متنازع قلم کار نے دنیا چھوڑ دی تھی۔ وہ سو سے زائد کتب کے مصنّف تھے۔

ترکی کے اس معروف ادیب اور شاعر کا اصل نام محمد نصرت تھا۔ وہ 20 دسمبر 1915ء کو سلطنت عثمانیہ کے زیرِ نگیں جزائر پرنس کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ لڑکپن میں استنبول آگئے۔ عزیز نیسن نے متعدد رسائل اور ادبی جرائد کی ادارت کی۔ انھوں نے طنز و مزاح سے بھرپور مضامین ہی نہیں کہانیاں بھی تخلیق کیں جنھیں‌ باذوق قارئین کے علاوہ سنجیدہ اور باشعور طبقے نے بھی سراہا اور ان سے متاثر ہوئے، لیکن بعد میں اپنے مذہبی رجحانات اور ملعون رشدی کے ناول کا ترجمہ کرنے کی وجہ سے انھیں‌ تنازع کا سامنا کرنا پڑا اور ترکی سمیت دنیا بھر میں‌ مسلمانوں نے ان پر کڑی تنقید کی۔ عزیز نیسِن کی شہرت پر ان کے مذہبی رجحانات اور افکار نے منفی اثر ڈالا۔

اگر عزیز نیسِن کی مذہب بیزاری اور ان کے خیالات کو نظرانداز کردیا جائے تو وہ ایک ایسے تخلیق کار تھے جس نے عوام کے حق کی بات کی اور مختلف ادوار میں افسر شاہی اور آمریت کے خلاف لکھا اور زیرِ عتاب آئے۔ تاہم مذہبی تنازع نے انھیں ناپسندیدہ اور خاصی حد تک غیرمقبول بنا دیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جس ادیب کی طنز و مزاح سے بھرپور کہانیوں کو دنیا کی تیس سے زائد زبانوں میں ترجمہ کیا گیا، آج اس کی قبر کا نشان بھی نہیں‌ ملتا۔ 1972ء میں اس قلم کار نے‘‘نیسن فاؤنڈیشن’’ قائم کی جس کا مقصد بے گھر اور ضرورت مند بچّوں کی کفالت کرنا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ وفات کے بعد وصیّت کے مطابق انھیں آخری رسومات ادا کیے بغیر نیسِن فاؤنڈیشن کی عمارت میں کہیں سپردِ خاک کیا گیا اور ان کے مدفن کو بے نشان رکھا گیا۔

Comments

- Advertisement -