ایک ایسے وقت میں جبکہ کسان سے لے کر مزدور تک، ریڑی والے سے لے کر سرمایہ دار تک سب پانامہ کیس کے فیصلے کے منتظر ہیں ۔ ساری پاکستانی قوم یہ جاننا چاہتی ہے کہ پانامہ کا فیصلہ کیا ہوگا ؟ جسٹس اعجاز افضل خان کے بیان سے یہ واضح ہوگیا کہ پانامہ کیس کا فیصلہ انصاف اور میرٹ کی بنیاد پر ہوگا اس سے قبل جسٹس کھوسہ نے بھی بیان دیا تھا کہ ایک ایسا فیصلہ ہوگا جو بیس سال یاد رکھا جائے گا۔
ان بیانات سے ایسا لگ رہا ہے کہ پانامہ کیس کافیصلہ میرٹ اور انصاف کی بنیاد پر ہوگا، ان خیالات کا اظہار سینئر قانون دان اور سینیٹر بابر اعوان نے اے آر وائی کے پروگرام پاورپلے میں میزبان ارشد شریف سے گفتگو کرتے ہوئے کیا، انہوں نے کہا کہ میں اس پروگرام کے توسط سے یہ سوال اٹھارہاہوں کہ جب میاں صاحب وزیر اعظم نہیں تھے تو کیاان کے بچوں نے کبھی کوئی کمائی کی تھی ،یا ان کاکوئی ذریعہ معاش تھا؟اس کا جواب نفی میں آتا ہے۔
مکمل پروگرا،م دیکھنے کے لیے نیچے اسکرول کیجئے
اگر بچوں کے خلاف بھی کوئی فیصلہ آتا ہے تو اس کا اثر میاں صاحب پر ہی پڑے گا کیونکہ ان کے بچے نابالغ تھے کچھ تو خود ان کے زیر کفالت تھے۔ وہ اپنا ذریعہ کاروبار بھی نہیں بتا سکے ۔ان کا کہنا تھا کہ آج تک آئین کے آرٹیکل 62 اور63 پر کبھی میرٹ کے مطابق فیصلے نہیں ہوئے۔ جتنے بھی فیصلے آئے تو نظریہ ضرورت کے تحت یا ہومیو پیتھک قسم کے فیصلے آئے۔اس سلسلے میں سب سے اہم کیس طاہرالقادری لے کر گئے تھے، تو اس وقت ان سے پوچھا گیا بتائیں کہ آپ کینیڈا میں رہتے ہیں یا یہاں؟ ٹھیک اسی وقت ایک اوربیر ونی شہری نے میمو گیٹ پر بیان دیا اور وہ کیس چلتارہا ۔ البتہ اس مرتبہ درست اور صحیح فیصلہ آنے کی امید ہے۔
نواز شریف کے کاغذوں میں بے تحاشہ غلط بیانی نکلی ہے۔اثاثے چھپانے سے متعلق پوچھے گئے سوال پر بابر اعوان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی عوامی عہدے دار اپنے اثاثہ جات چھپاتاہے، تو اس کا مطلب غلط بیانی ہوتی ہے ۔ کیا اس صورت میں کوئی شخص صادق اورامین رہے گا؟یہی باتیں آئین کے آرٹیکل62 اور 63 میں بھی موجود ہیں ۔ اگر کوئی شخص اپنے اثاثہ جات چھپاکررکھتا ہے۔ اور ظاہر ہونے کے بعد ان کوقبول کرے تو وہ مجرم تصور کیا جائے گا اور وہ 62 اور 63 کے دائرہ کار سے نہیں نکل سکتا۔
کلبھوشن کو پھانسی پرحکومت کی گھبراہٹ سمجھ سے بالاتر ہے
بابر اعوان نے کہا کہ قانونی جادوگری میں سب سے غیر قانونی چیز جوسامنے آئی وہ قطری خط تھا ۔یہ خط پہلی دفعہ لاہور ہائی کورٹ میں پیش ہوا لیکن اس خط کو نہیں مانا گیا اس بنیاد پر کہ جب تک خط لکھنے والا کٹہرے میں نہیں آئے گا کٹہرے میں اس کے اوپر جرح نہیں ہوگی جرح کے بعد دونوں جانب سے سوالات نہیں ہوں گے‘ خط قابلِ قبول نہیں۔ قانون شہادت میں یہ لکھا ہے کہ اگر جرح کے دوران عدالت یہ سمجھے کہ وہ کسی درست نتیجے پر نہیں پہنچ سکے تو عدالت خود سوال اٹھا سکتی ہے، اور یہاں تو سارے سوالات عدالت نے اٹھائے ہیں۔
سینیٹر بابراعوان نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ اپریل کے وسط تک پانامہ کا فیصلہ آئے گا ۔ اگر چہ کسی کیس کا فیصلہ آنے کے لئے کوئی باقاعدہ قانون موجود نہیں البتہ روایات موجود ہیں ۔ جس کے مطابق فیصلہ 30دن میں کیا جانا چاہئے ۔روایت یہ بھی ہے کہ فیصلہ محفوظ کرکے لکھ کر چھوڑ دیا جاتا ہے ان کا کہنا تھا کہ اس مرتبہ آرٹیکل 62اور63پرسرجیکل فیصلہ آسکتا ہے۔
ایک سوال پر کہ اگر آرٹیکل 62/63 کا اطلاق ہوا ہے تو پارلیمنٹ خالی ہوسکتا ہے بابر اعوان نے کہا کہ یہ تصور صحیح نہیں ساری سیاسی جماعتوں میں بے شمار اچھے لوگ موجود ہیں۔زیادہ بچ جائیں گے یہ کہنا درست نہیں کہ پارلیمنٹ خالی ہوگا میں سمجھتا ہوں کہ اوپر بیٹھے لوگ خالی ہوجائیں گے ۔ بے شمار عام لوگ ایسے ہیں جو اس آرٹیکل پر پورا اترتے ہیں ۔ اگر بالفرض سارے پارلیمنٹرین اس کی زد میں آتے ہیں تو کیا فرق پڑے گا کوئی اور آئیں گے ۔ 2014ء میں جو ایک سو چھبیس دن کا دھرنا ہوا لوگوں نے لاٹھی اور آنسو گیس برداشت کئے اس نے پاکستان کی تاریخ بدل ڈالی اب کوئی مقدس گائے نہیں رہی ۔
ستر سالوں سے عوام انتظار کررہی تھی عام لوگوں کے لئے قانون کچھ اور تھا خواص کے لئے اور ۔پانامہ کیس کا عالمی اثر بھی پڑے گادنیا میں جہاں کہیں بھی یہ لوگ جائیں گے ان سے سوال ہو گا۔ڈاکٹر بابر اعوان کا کہنا تھا کہ ماضی کا قصہ کچھ اور تھا اور اب حالات بدل چکے ہیں ۔ ماضی میں احتسابی توپوں کا رخ لاڑکانہ کی جانب تھا کبھی لاہور کی جانب نہیں ہوا اب لگتا ہے تخت لاہور بھی احتساب کی زد میں ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان پیپلزپارٹی کو اس کیس میں فریق بننا چاہئے تھا آج زرداری صاحب کا بیان آیا ہے کہ مجھے اس کیس کا انتظار ہے تو اس کیس کا فریق کیوں نہیں بنے؟ پاکستان پیپلزپارٹی نے اس کیس میں فریق نہ بن کر بہت بڑی غلطی کی ہے ۔ کیونکہ یہ عوام کا مطالبہ تھا جتنی غلطی پیپلزپارٹی نے 1985ء کے انتخابات میں حصہ نہ لے کر کی تھی اتنی ہی غلطی پانامہ کیس میں فریق نہ بن کر کی ہے۔
بابر اعوان نے کہا کہ جن لوگوں کو برگر یوتھ کہہ کر مذاق اڑایا جاتا تھا وہ باہر نکلے اور جو خود کو بڑے ہی نظریاتی کہہ رہے تھے وہ گھروں میں دبک کر بیٹھ گئے۔ اس کیس میں سوشل میڈیا نے بھی اہم کردار ادا کیا اور تمام تر مشکلات کے باوجود مین اسٹریم میڈیا بھی جرات کا مظاہرہ کرکے عوام کے ساتھ کھڑا رہا۔
مؤثرحکمت عملی کے بغیر دہشتگردی کا مقابلہ ممکن نہیں
کلبھوشن یادیو کے مسئلے پربھارتی سیاست دانوں کے ردعمل پر بابر اعوان کا کہنا تھا کہ مجھے ان میں سے کوئی ایک بھی سیاسی رہنما یا لیڈر بولتا ہوا نظر نہیں آیا جو لوگ پاکستان میں بیٹھ کر کہتے ہیں کہ بھارت کی جمہوریت دیکھو میں ان کو بتاتا ہوں کہ بھارتیوں کی زبان دیکھو۔ فوجی عدالتیں بالکل جمہوری ادارے ہیں ۔ پارلیمنٹ نے فوجی عدالتیں قائم کیں ہیں ۔ آج بھارت کے سیاست دان ایک مجرم کا دفاع کررہے ہیں یہ ان کی جمہوریت کے چہرے پر سیاہ دھبہ ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم میاں نواز شریف کا پانامہ کے بعد سب سے بڑی غلطی کلبھوشن یادیو کے معاملے پر پراسرار خاموشی ہے ۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ میاں نواز شریف کے بھارت کے ساتھ کاروباری مفادات وابسطہ ہیں ۔ جس کی وجہ سے چپ کا روزہ رکھا ہوا ہے ۔بھارت پاکستان میں تجارت کرکے اربوں روپے کما رہا ہے اور پاکستان کو کیا ملا؟۔
بابر اعوان کا کہنا ہے کہ بھارتی ذرائع ابلاغ میں یہ خبر محوگردش ہے کہ نوازشریف کلبھوشن یادیو کو چھڑوا دیں گے ۔ میں سمجھتاہوں کہ کلبھوشن کو اپیل کا جوحق دیا گیا ہے اس میں پہلی اپیل کی درخواست آرمی چیف ہی کے پاس جائے گی۔ پاکستان کی سالمیت سے بالاتر نہ کسی کاکاروبارہے اورنہ ہی کوئی ادارہ ۔ پاکستان کی سلامتی ہی سب سے مقدم ہے ۔ہمیں ا پنے قانون پر عمل درآمد کیلئے بھارت سے مشورہ لینے کی کوئی ضرورت نہیں اگر اجمل قصاب کو ویڈیو بیان کے بعد پھانسی دی جاسکتی ہے تو کلبھوشن یادیو کے بیان پر بھارت کا واویلہ سمجھ سے بالاتر ہے۔اس سے قبل بھی تین بھارتیوں کو ہم نے چھوڑا تو اُنھوں نے بھارت پہنچ کر بیان دیا کہ ہاں ہم جاسوس تھے اور پاکستان میں تخریب کاری کی کاروائیاں کرتے رہے۔
ڈان لیکس کے حوالے سے سینیٹر بابر اعوان کا کہنا تھا کہ سارے وفاقی حکومت کے ادارے جیسا کہ فوج ، وزارت اطلاعات اور وزارت داخلہ یہ کہتے ہیں کہ ڈان لیکس کے مجرموں کو نہیں چھوڑیں گے ایک حکومتی وزیر کہہ رہے ہیں کہ اس ایشو کو بھول جانا چاہئے تو میں سمجھتا ہوں کہ اس مسئلے کو بھولنا ممکن نہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کے سب سے بڑے ہاؤس میں سب سے بڑے اداروں کے سربراہ اکٹھے بیٹھے اوراس میں سیکیورٹی کی خلاف ورزی ہوئی کیا اس قسم کے واقعات کو بھولنا ممکن ہیں؟ ایک سوال پر کہ سیکیورٹی کی خلاف ورزی پر کون کون سے قوانین نافذ ہوتے ہیں سینیٹر بابر اعوان نے کہا کہ اس پر پانچ قوانین نافذ العمل ہوتے ہیں پہلا دہشت گردی ایکٹ یعنی 7ATA، دوسرا آفیشل سیکریٹ ایکٹ ،تیسرا آرمی ایکٹ 52، چوتھا تعزیرات پاکستان ایکٹ اور پانچویں آرٹیکل 6کے تحت بنا قانون لاگو ہوسکتا ہے۔