تازہ ترین

بادشاہ اور فقیر (ایک سبق آموز قصہ)

یہ اُس زمانے کی بات ہے جب دنیا میں بادشاہتیں قائم تھیں اور کئی کئی میل پر پھیلی ہوئی ریاستوں پر مختلف خاندانوں کی حکومت ہوا کرتی تھی۔ اسی دور کے ایک بادشاہ پر قدرت مہربان ہوئی اور اس کے ایک عقل مند وزیر اور بہادر سپاہ سالار کی بدولت اس کی سلطنت وسیع ہوتی چلی گئی۔

اس بادشاہ کے پڑوسی ممالک پہلے ہی اس کی فوجی طاقت سے مرعوب تھے اور اس کے مطیع و تابع فرمان تھے۔ وہاں اسی بادشاہ کے نام کا سکّہ چلتا تھا۔ بادشاہ نے ان کی فوجی قوّت اور وسائل کو بھی اپنے مفاد میں‌ استعمال کیا اور دور تک پھیلے ہوئے کئی ممالک پر حملہ کرکے انھیں بھی فتح کرلیا تھا۔ لیکن اتنی بڑے رقبے پر حکومت کرنے کے باوجود اس کی ہوس کم نہیں ہورہی تھی۔ وہ اپنی طاقت کے گھمنڈ میں بھی مبتلا ہوچکا تھا اور یہ سوچتا تھا کہ دنیا پر حکم رانی اس کا حق ہے۔ ہر قوم کو اس کی بادشاہی قبول کرلینی چاہیے۔

یہ بادشاہ قسمت کا ایسا دھنی تھا کہ ہر سال ایک ملک فتح کرتا۔ وہ مفتوح علاقوں میں اپنے نام کا سکّہ جاری کرکے وہاں اپنی قوم سے کوئی حاکم مقرر کردیتا اور اس وہاں کے لوگوں پر اپنا قانون لاگو کرکے نظام چلانے لگتا۔ لیکن ان مسلسل فتوحات کے بعد اسے عجیب سا اضطراب اور بے چینی رہنے لگی تھی۔ یہ دراصل وہ حرص تھی جس نے اس کی راتوں‌ کی نیند اور دن کا سکون چھین لیا تھا۔ وہ راتوں کو اٹھ کر نئی مہمات کے منصوبے بناتا رہتا تھا۔ وقت تیزی سے گزرتا رہا اور ایک مرتبہ ایسی ہی مہم پر بادشاہ نے اپنی فوج روانہ کی۔ لیکن چند ہفتوں بعد قاصد خبر لے کر آیا کہ بادشاہ کی فوج کو ناکامی ہوئی ہے اور دشمن اس پر غالب آگیا ہے۔ کئی سال کے دوران مسلسل فتوحات نے بادشاہ کا دماغ خراب کردیا تھا۔ وہ شکست کا لفظ گویا فراموش کر بیٹھا تھا۔ اس نے یہ سنا تو غضب ناک ہوگیا۔ اس نے مزید لشکر تیّار کرکے خود اس ملک کی جانب روانہ ہونے کا فیصلہ کیا۔ بادشاہ تیزی سے صحرا، پہاڑ، دریا عبور کرتا ہوا اس ملک کی سرحد پر پہنچا جہاں اس کا بھیجا ہوا لشکر ناکام ہوگیا تھا۔ جنگ شروع ہوئی اور مخالف بادشاہ کی فوج جس کا ساتھ اس کے پڑوسی ممالک بھی دے رہے تھے، انھوں نے ایک مرتبہ پھر حملہ آوروں کو ڈھیر کردیا اور بادشاہ کو نامراد لوٹنا پڑا۔ یہ شکست اس سے ہضم نہیں ہورہی تھی۔

اس ناکام فوجی مہم سے واپسی پر بادشاہ بہت رنجیدہ اور پریشان تھا۔ ایک روز وہ اپنی بیوی سے باتیں کررہا تھا جس نے کہا کہ وہ ایک بزرگ کو جانتی ہے جس کی دعا سے وہ دوبارہ میدانِ‌ جنگ میں کام یاب ہوسکتا ہے۔ بادشاہ نے اس بزرگ کو دربار میں‌ طلب کیا۔ مگر بزرگ نے آنے سے انکار کردیا اور کہلوا بھیجا کہ جسے کام ہے وہ مجھ سے میری کٹیا میں‌ آکر خود ملے۔ قاصد نے بادشاہ کو بزرگ کی یہ بات بتائی تو بادشاہ برہم ہوگیا۔ مگر اس کی بیوی نے سمجھایا کہ وہ بہت پہنچے ہوئے ہیں اور ایسے لوگوں کا احترام کرنا چاہیے۔

ایک روز بادشاہ اپنے چند مصاحبوں کو لے کر فقیر کی کٹیا پر حاضر ہوگیا۔ سلام دعا کے بعد اس نے اپنا مدعا بیان کیا۔ بزرگ نے اس کی بات سنی اور کہا کہ میں تجھے حکومت اور قومیں فتح کرنے کا کوئی گُر تو نہیں بتا سکتا، مگر ایک ایسی بات ضرور تجھ تک پہنچا دینا چاہتا ہوں جس میں سراسر تیری فلاح اور بھلائی ہے۔ بادشاہ کو غصّہ تو بہت آیا مگر اس پر فقیر کی بے نیازی اور رعب قائم ہوچکا تھا۔ اس نے سوالیہ نظروں سے دیکھا، تو بزرگ نے کہا، "اللہ کا ایک بندہ آدھی روٹی کھا لیتا ہے اور آدھی دوسرے بھوکے شخص کو دے دیتا ہے، مگر ایک بادشاہ کا یہ حال ہوتا ہے کہ اگر دنیا کے بڑے حصّے پر قبضہ کر لے تب بھی اس کو باقی دنیا پر قبضہ کرنے کی فکر سوار رہتی ہے! تجھے چاہیے کہ جو مل گیا ہے اس پر اکتفا کر اور اگر دل کو ہوس سے پاک کرنا ہے تو جو کچھ تیری ضرورت سے زائد ہے اسے تقسیم کر دے۔

یہ کہہ کر بزرگ نے بادشاہ کو کٹیا سے نکل جانے کا اشارہ کیا اور بادشاہ محل لوٹ گیا۔ لیکن وہ جان گیا تھا کہ یہ بے اطمینانی اور اضطراب اسی وقت ختم ہوسکتا ہے جب وہ حرص چھوڑ دے اور خواہشات کو ترک کرکے قانع ہوجائے۔

Comments

- Advertisement -