پیر, ستمبر 30, 2024
اشتہار

ایک کہانی جو ہماری سوچ کو بدل سکتی ہے!

اشتہار

حیرت انگیز

یہ ایک بادشاہ کی کہانی ہے، جس میں ہمارے لیے ایک سبق پوشیدہ ہے۔ ہمارے لیے اکثر مصیبت اور کسی افتاد کے موقع پر صبر کرنا یقیناً آسان نہیں ہوتا، ہم عام زندگی میں اکثر جلد بازی اور عجلت کا مظاہرہ کرتے ہیں اور ہم میں سے بہت کم لوگ مثبت طرزِ فکر اپناتے ہیں۔ مگر یہ ایسی کہانی ہے جو کئی لوگوں کی سوچ کو بدل سکتی ہے۔

یہ ایک سلطنت کے شہزادے اور اس کے بچپن کے دوست کی کہانی ہے۔ وہ اکٹھے کھیل کود کر جوان ہوئے تھے۔ ان کی دوستی مثالی تھی اور وہ ایک دوسرے کے راز دار بھی تھے۔ جب اپنے باپ کی موت کے بعد اس شہزادے نے سلطنت کی باگ ڈور سنبھالی تو اپنے اُس دوست کو فراموش نہیں کیا۔ وہ اسے ہمہ وقت ساتھ رکھتا تھا۔ بادشاہ کے اس کی عادت تھی کہ جب بھی اس کی زندگی میں کوئی اچھی بُری بات ہوتی تو وہ کہتا کہ جو ہوتا ہے اچھے کے لئے ہوتا ہے۔

ایک روز بادشاہ اپنے اسی دوست کے ساتھ شکار پر گیا۔ جنگل میں ایک مقام پر پہنچ کر انھوں نے اپنا خیمہ گاڑ دیا۔ بادشاہ کے دوست نے بندوق میں بارود بھرا اور بندوق تیار کر کے بادشاہ کو تھما دی۔ وہ جنگل میں آگے بڑھے تو بادشاہ کو ہرن دکھائی دیا۔ بادشاہ نے ہرن کا نشانہ باندھ کر گولی چلائی تو نشانہ چوک گیا لیکن اچانک بادشاہ کو اپنے ہاتھ میں تکلیف کا احساس ہوا۔ دیکھا تو اُس کا انگوٹھا کٹ چکا تھا۔ بادشاہ کو شدید جلن محسوس ہو رہی تھی۔ یہ دیکھ کر اس کے دوست نے حسبِ‌ عادت کہا ’جو ہوتا ہے اچھے کے لئے ہوتا ہے، اس میں یقیناً کوئی بہتری ہو گی۔ اس موقع پر بادشاہ نے یہ سنا تو اسے بڑا غصّہ آیا اور بولا: یہ بہتر نہیں ہے، میرا انگوٹھا ضائع ہو گیا ہے۔ وہ فوراً محل لوٹ آئے اور بادشاہ نے داروغہ کو بلا کر حکم دیا کہ اس کے دوست کو قید خانے میں ڈال دیا جائے۔

- Advertisement -

اس واقعہ کو ایک سال گزر گیا۔ ایک روز بادشاہ دوبارہ شکار کھیلنے گیا اور گھنے جنگل میں اپنے ساتھیوں اور محافظ دستے سے بچھڑ گیا۔ جنگل میں‌ اسے توہم پرست اور وحشی صفت قبیلے کے لوگوں نے پکڑ لیا اور اپنے علاقے میں لے گئے۔ یہ آدم خور بھی تھے۔ انھوں نے بادشاہ کے ہاتھ باندھ دیے اور آگ بھڑکا دی۔ اب دو لمبے چوڑے قبائلی بادشاہ کی طرف بڑھے۔ وہ اسے جان سے مارنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ اچانک اُن میں سے ایک کی نظر بادشاہ کے انگوٹھے پر پڑی۔ اس نے اپنے ساتھیوں کی توجہ اس طرف مبذول کروائی اور اپنی زبان میں‌ کہا کہ یہ تو معذور ہے۔ دراصل وہ قبیلہ بہت وہمی اور وہاں کے سب لوگ توہم پرست تھے۔ وہ کسی جسمانی معذوری کا شکار انسان کو نہیں کھاتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ اس طرح دیوتا ان سے ناراض ہوجائے گا۔ لہٰذا انھوں نے بادشاہ کو رہا کر دیا۔

بادشاہ گرتا پڑتا کسی طرح اپنے محل میں پہنچا اور سب سے پہلے اپنے دوست کو جیل سے نکال کر دربار میں لانے کا حکم دیا۔ اسے جنگل سے بھاگتے ہوئے مسلسل یہ خیال ستاتا رہا تھا کہ کس طرح اُس کا انگوٹھا کٹ گیا تھا اور اُس کے دوست نےت کہا تھا کہ جو ہوتا ہے اچھے کے لیے ہوتا ہے۔ جب اُس کا دوست آیا تو بادشاہ اس سے بے اختیار لپٹ گیا اور معافی مانگتے ہوئے اُسے ساری روداد سنا دی اور کہا کہ میں نے تمھارے ساتھ بہت بُرا کیا اور جیل میں‌ ڈلوا دیا۔ واقعی یہ اچھا ہوا تھا کہ اس روز میرا انگوٹھا کٹ گیا تھا۔ آج اس انگوٹھے کے نہ ہونے کی وجہ سے میری جان بچ گئی۔

بادشاہ کا دوست اس کی بات سن کر مسکرایا اور بولا: یہ بھی بہتر ہی ہوا کہ آپ نے مجھے جیل بھجوا دیا۔ اپنے دوست کی یہ بات سن کر بادشاہ بہت حیران ہوا اور کہنے لگا کہ یہ کس طرح‌ بہتر ہوا دوست، تم ایک سال تک جیل میں رہے اور کہہ رہے ہو کہ اچھا ہوا۔ بادشاہ کا دوست بولا: اگر میں جیل میں نہ ہوتا تو یقیناً تم مجھے شکار پر اپنے ساتھ لے گئے ہوتے اور وہ جنگلی مجھے ہڑپ کر چکے ہوتے کیونکہ میرا انگوٹھا صحیح سالم ہے۔ اس نے مزید کہا، زندگی میں اکثر جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ یقیناً اچھے کے لیے ہوتا ہے، لیکن انسان فطرتاََ جلد باز واقع ہوا ہے جب کہ قدرت کسی اور طرح ہمارا ساتھ دے رہی ہوتی ہے۔ اُمید کا دامن کبھی نہیں چھوڑنا چاہیے اور سوچ ہمیشہ مثبت رکھنی چاہیے۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں