پیر, ستمبر 16, 2024
اشتہار

”کھاٹ بُنا لو“ یا ”چارپائی بُنا لو؟“

اشتہار

حیرت انگیز

کتاب ‘لال قلعہ کی ایک جھلک’ کے مصنّف سید ناصر نذیر فراق دہلوی ہیں۔ وہ اردو کے ایک بڑے ادیب، شاعر اور انشا پرداز تھے۔ مذکورہ کتاب ان متعدد واقعات اور قصائص پر مبنی ہے جو مصنّف نے سن رکھے تھے۔ آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے زمانے کی دلّی اور لال قلعے کے دل چسپ واقعات کے علاوہ اس کتاب سے ہمیں اس دور کے بعض سماجی رویوں اور شاہی خاندان کے حالات کے بارے میں معلوم ہوتا ہے۔

یہاں ہم اسی کتاب سے اُس دور میں زبان و بیان کے ضمن میں ایک دل چسپ واقعہ نقل کررہے ہیں۔ سید ناصر نذیر فراق دہلوی لکھتے ہیں:

اکبرِ ثانی کے حضور میں پرچا گزرا کہ آج شاہ جہاں آباد میں شہر والوں نے کھٹ بُنوں کو خوب مارا پیٹا، کیوں کہ کھٹ بُنوں کا قاعدہ ہے کہ جب وہ شہر میں پھیری پھرنے آتے ہیں، تو آواز لگاتے ہیں، ”کھاٹ بُنا لو کھاٹ… کھاٹ بُنا لو کھاٹ!“

- Advertisement -

شہر والوں نے کہا نکلے تمہاری کھاٹ۔ یہ کیا بری فال منہ سے نکالتے ہو۔ پھر جو انہیں پیٹا تو پیٹتے پیٹتے جھلنگا بنا دیا اور اس ٹکسال باہر لفظ سے توبہ کروائی اور سمجھایا کہ بجائے کھاٹ بُنا لو کے چار پائی بُنا لو کہا کرو، چناں چہ جب سے اب تک کھاٹ بُنے، چارپائی بُنا لو ہی کہتے ہیں۔

اس تکلف و تنبیہہ اور تدبیر اور تدبر سے اردو معلیٰ کو سنوارا گیا ہے۔ اور جگہ اردو کو چار چاند نہیں لگ سکتے۔ ان کھٹ بُنوں کی ایک صفت قابلِ رشک ہے کہ شاہ جہاں کے عہد سے آج تک ان کا کسی قسم کا مقدمہ عدالتِ شاہی میں نہیں آیا۔ ان کا سرگروہ جو چوہدری کہلاتا ہے، وہی چُکا دیتا ہے۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں