کوئٹہ: بلوچستان اسمبلی کے ناراض اور اپوزیشن اراکین نے مطالبہ کیا ہے کہ 24 گھنٹے کے اندر اندر ان کے لوگ بازیاب کرائے جائیں۔
ناراض رکن اسد بلوچ نے پریس کانفرنس میں کہا کہ جام کمال نے اسٹیپ ڈاؤن نہیں کیا تو پہیہ جام ہڑتال ہو سکتی ہے، ہمارے کسی بندے کو نقصان ہوا تو ذمہ دار جام کمال ہوں گے۔
اسد بلوچ نے کہا کہ ہمیں پتا ہے کہ ہمارے لوگ کہاں ہیں، آج کل سائنس کا دور ہے، ہمیں معلوم ہے ہمارے لوگوں کو 25 اکتوبر کے بعد چھوڑ دیا جائے گا۔
ملک سکندر نے پریس کانفرنس میں کہا 34 اراکین اسمبلی جام کمال کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کا حصہ بنے، اس عدم اعتماد کی تحریک کے بعد جام کمال بلوچستان کا وزیر اعلیٰ نہیں رہے۔
انھوں نے کہا اراکین اسمبلی کو آئینی طور پر اسمبلی تک رسائی نہیں دی جا رہی، بلوچستان کے ایم پی ایز خصوصاً خواتین کی رائے کو دبانے کے لیے اغوا کیا گیا، ہم سب سے پہلے چیف سیکریٹری کے آفس گئے وہ غائب ہوگئے، باقی ایم پی ایز کو دھمکی آمیز فون آ رہے ہیں، ہم گورنر بلوچستان کے پاس گئے اور ان سے کہا آپ آئینی اختیارات استعمال کریں، ہم آئی جی ڈھونڈتے رہے ان کے گھر گئے تو پتا چلا وہ گھر پر نہیں ہیں۔
سردار عبدالرحمان نے کہا چیف جسٹس نے جام کمال کی تینوں درخواستیں مسترد کر دیں، جام کمال ہارس ٹریڈنگ کر رہے ہیں، مجھے 10 کروڑ اور وزارت کی آفر کی گئی لیکن میں نے نہیں مانا، پھر 20 کروڑ کی پیش کش کی گئی۔
دوسری طرف لاپتا رکن بلوچستان اسمبلی ماہ جبین شیران نے ایک ٹوئٹ کے ذریعے بتایا ہے کہ وہ کچھ ذاتی مسائل کی وجہ سے کل اسمبلی نہیں پہنچ سکی تھیں، الحمدللہ میں ٹھیک ہوں اور محفوظ ہوں۔
ترجمان بلوچستان حکومت لیاقت شاہوانی نے ناراض اراکین کی پریس کانفرنس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ارکان کے لاپتا ہونے سے متعلق بے بنیاد پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے، یہ پی ڈی ایم کے غیر سنجیدہ ساتھی ہیں، ہم اراکین اسمبلی کو لا پتا کرنے سے متعلق الزام کو یکسر مسترد کرتے ہیں۔
واضح رہے کہ وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال کے مستقبل کا فیصلہ پچیس اکتوبر کو ہوگا، بلوچستان اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پر رائے شماری پیر کی صبح گیارہ بجے ہوگی، دو دن قبل تحریک عدم اعتماد کی تینتیس ارکان نے کھڑے ہو کر حمایت کی تھی، وزیر اعلیٰ جام کمال نے استعفے کا مطالبہ مسترد کرتے ہوئے ڈٹ کر مقابلہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔