مودی سرکار کی انتہا پسندانہ اور پڑوسیوں کے ساتھ ٹکراؤ کی پالیسیوں سے صرف ملک کے اندر ہی عوام بالخصوص اقلیتیں پریشان نہیں ہیں، بلکہ پڑوسی ممالک بھی نالاں ہیں، مالدیپ نے آخرکار بھارت کو نکال باہر کر دیا ہے اور اب بنگلادیش میں بھی ’انڈیا آؤٹ‘ کا نعرہ لگ گیا ہے۔
گزشتہ برس بھارت کے پڑوسی ملک مالدیپ میں صدارتی انتخاب کی مہم چلانے والے محمد معیزو نے ’انڈیا آؤٹ‘ کے نعرے پر صدارتی انتخاب میں کامیابی حاصل کی تھی، انھوں نے صدر بننے کے بعد بھارت کو مالدیپ سے سیکیورٹی کے نام پر موجود افواج کو ہٹانے پر مجبور کیا، جنھیں اب مرحلہ وار ہٹایا جا رہا ہے۔
انڈیا آؤٹ کا یہ نعرہ اب بنگلادیش میں بھی مقبول ہونے لگا ہے، یہ مہم کچھ سوشل میڈیا انفلوئنسرز، سماجی کارکنوں اور اثر و رسوخ رکھنے والی شخصیات نے شروع کی ہے، سوشل میڈیا پر ’پیپلز ایکٹیوسٹ کولیشن‘ نامی اتحاد نے ایک ویڈیو شیئر کی ہے جس میں ’انڈیا آؤٹ‘ مہم کے تحت عوام سے انڈین مصنوعات کے بائیکاٹ کی اپیل کی گئی ہے، اس مہم کی حمایت عوام اور اپوزیشن ’بی این پی‘ کے رہنما بھی کر رہے ہیں، حزب اختلاف کے رہنما روح الکبیر رضوی نے بھارتی مصنوعات کے خلاف علامتی احتجاج کے طور پر اپنی کشمیری شال سڑک پر پھینکی۔
The common people of Bangladesh have responded to the #IndiaOut #BoycottIndia #BoycottIndianProducts It’s time to kick India out of Bangladesh.
Video credit: PAC Media https://t.co/k3ZNFlEWJA pic.twitter.com/ZBZhX6RXt9
— Revolt (@revolt_71) February 27, 2024
بنگلادیشی عوام کا کہنا ہے کہ بھارت پس پردہ شیخ حسینہ واجد کے اقتدار کو مضبوط رکھنے کے لیے سازشیں کر رہا ہے، اسی لیے بنگلادیش میں بھارتی مصنوعات کا بڑے پیمانے پر بائیکاٹ شروع کر دیا گیا ہے، یہاں تک کہ ’انڈیا آؤٹ‘ مہم کی بازگشت امریکا تک بھی پہنچ گئی ہے، امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر سے جب اس بابت سوال کیا گیا تو انھوں نے کہا ’ہمارے پاس اس مہم کی رپورٹس ہیں، لیکن ہم کسی صارف کے فیصلے پر کوئی تبصرہ نہیں کر سکتے، ہم بنگلادیش اور انڈیا دونوں کے ساتھ اپنے تعلقات کی قدر کرتے ہیں۔‘
This is what the State Department Spox said in response to my question about the accusations made by the Bangladesh Anti-Corruption Commission lawyer against Ambassador Peter Haas for his comments and the ‘India Out’ campaign in the region, including Bangladesh: pic.twitter.com/1Tx0wR4psU
— Mushfiqul Fazal (Ansarey) (@MushfiqulFazal) March 11, 2024
واضح رہے کہ نریندر مودی کی حکومت میں بھارت ایک ایسا ملک بن چکا ہے جس سے اس کا ہر پڑوسی ناراض ہے اور تکلیف میں ہے، اس کی گواہی بھارتی ریاست مغربی بنگال کے رکن پارلیمان جواہر سرکار نے بھی دی ہے، انھوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا: ’ہر پڑوسی انڈیا سے ناراض ہے، نیپال انڈین غنڈہ گردی سے نفرت کرتا ہے، سری لنکا کو تمل اور باسزم کی وجہ سے مسائل ہیں، مالدیپ نے ہمیں لات مار کر باہر نکال دیا، بھوٹان چین کی طرف جھک رہا ہے، اور اب بنگلادیش میں ’انڈیا آؤٹ‘ تحریک سرگرم ہے۔‘
دوسری طرف بھارتی مصنوعات کے بائیکاٹ کی اس مہم کے حوالے سے جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں ساؤتھ ایشین سٹڈیز کے پروفیسر سنجے بھاردواج نے اپنی رائے دی ہے کہ بنگلادیش تین طرف سے زمین سے انڈیا سے گھرا ہے، دونوں طرف بنگالی بولنے والی برادریاں رہتی ہیں، جس میں ہندو مسلم دونوں شامل ہیں، ان کے درمیان شادی بیاہ کے رشتے ہیں، ان کا ایک دوسرے پر بہت زیادہ انحصار ہے، یہاں تک کہ کلکتہ میں شاپنگ کیے بغیر بنگلادیشیوں کو عید میں بھی مزہ نہیں آتا، اس لیے بنگلادیش انڈیا بائیکاٹ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
پرفیسر سنجے نے بھارتی مصنوعات کے بائیکاٹ سے بنگلادیش میں مہنگائی بہت زیادہ بڑھنے کا خدشہ ظاہر کیا ہے، کچن کے مصالحوں سے لے کر ادویات تک پر بنگلادیش کا انڈیا پر انحصار ہے، پیاز، لہسن، ناریل تیل، خوردنی تیل سب انڈیا سے فراہم ہوتا ہے۔
واضح رہے کہ خطے میں بنگلادیش تیزی سے ترقی کرنے والی معیشتوں میں سے ایک ہے، چین اور جاپان کی جانب سے انفرااسٹرکچر کے ترقیاتی منصوبوں میں اشتراک کیا جا رہا ہے، ایسے میں بنگلادیشی عوام حکومت میں بھارتی مداخلت سے تنگ آ کر بھارتی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم چلانے لگے ہیں، تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ انڈیا شیخ حسینہ کی حکومت کے ساتھ مضبوطی سے کھڑا ہے۔
بنگلادیش نیشنل پارٹی (بی این پی) کے بعض رہنماؤں کی جانب سے انڈین مصنوعات کے بائیکاٹ کے مطالبے کے جواب میں طنز کرتے ہوئے وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد نے کہا ہے کہ ’میرا سوال ہے کہ اُن کی بیویوں کے پاس کتنی انڈین ساڑھیاں ہیں؟ وہ اپنی بیویوں سے یہ انڈین ساڑھیاں لے کر انھیں جلا کیوں نہیں دیتے؟‘