منگل, فروری 4, 2025
اشتہار

بانو قدسیہ:‌ معروف ادیبہ، ایک مقبول نام

اشتہار

حیرت انگیز

بانو قدسیہ نے ناول، افسانہ اور ڈرامہ نگاری ہی میں نام و پہچان نہیں بنائی بلکہ خاص طور پر معاشرے میں شعور اور احساس کو اجاگر کرنے کی اپنی کوششوں کی بدولت وہ ہر عمر اور طبقۂ سماج میں مقبول ہوئیں۔ آج بانو قدسیہ کی برسی ہے۔

4 نومبر 2017ء کو بانو قدسیہ لاہور میں انتقال کرگئی تھیں۔ ناول نگار بانو قدسیہ 28 نومبر 1928ء کو برطانوی ہند میں ایک زمیں دار گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ یہ ایک تعلیم یافتہ گھرانا تھا تقسیمِ ہند کے بعد بانو قدسیہ لاہور آگئیں۔ انھوں نے معروف ناول نگار اور دانش ور اشفاق احمد سے شادی کی تھی۔

بانو قدسیہ کو بچپن سے ہی اردو ادب کا بے حد شوق تھا۔ وہ بچوں کے رسالے، ادبی جرائد باقاعدگی سے پڑھا کرتی تھیں۔ بانو قدسیہ نے کنیئرڈ کالج لاہور برائے خواتین سے ریاضیات اور اقتصادیات میں گریجویشن کے بعد 1951ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم اے اردو کی ڈگری حاصل کی۔ اپنے پڑھنے لکھنے کے شوق کی تکمیل کے لیے انھوں نے اپنے کالج کے زمانے سے ہی رسالوں میں لکھنا شروع کردیا تھا اور پھر وہ ریڈیو کے لیے لکھنے لگیں۔ یہ اس دور میں ایک بڑا مقبول میڈیم ہوا کرتا تھا۔ لوگ بہت شوق سے ریڈیو پر ڈرامہ سنتے اور مختلف علمی و ادبی پروگرام اور موسیقی کے پروگرام سنتے تھے۔ اسی دور میں‌ بانو قدسیہ کا نام گھر گھر لیا جانے لگا۔ ڈرامے اور مختلف ریڈیو پروگراموں کے اسکرپٹ کے ساتھ افسانہ نگاری اور پھر اردو ناول لکھنے کا سلسلہ بھی بانو قدسیہ نے جاری رکھا۔ ’راجہ گدھ‘ ان کا وہ ناول تھا جو بہت مقبول ہوا۔ اس کے علاوہ ’امر بیل‘ نے بھی بانو قدسیہ کو شہرت دی۔ حاصل گھاٹ بھی انہی کا ایک مقبول ناول ہے۔ بانو قدسیہ نے ریڈیو کے ساتھ اسٹیج اور ٹیلی ویژن کے لیے پنجابی اور اردو زبان میں ڈراموں کے اسکرپٹ لکھے۔ ان کے ڈراموں میں ’پیا نام کا دیا‘، ’فٹ پاتھ کی گھاس‘، ’آدھی بات‘ اور دیگر شامل ہیں۔

بانو قدسیہ کی تحریروں کا بنیادی موضوع محبت کی تلخ حقیقت، جذبات اور احساسات کے ساتھ زندگی کے نشیب و فراز ہوتے تھے اور ان کا مقصد وفا، برداشت، ایثار کو فروغ دینا رہا۔

معروف ناول نگار بانو قدسیہ کو 1983ء میں حکومتِ پاکستان کی جانب سے ہلالِ امتیاز اور 2010ء میں ستارۂ امتیاز سے نوازا گیا۔ 2012ء میں بانو قدسیہ کو کمالِ فن ایوارڈ بھی دیا گیا تھا۔

راہِ رواں بانو قدسیہ کی ایک کتاب کا نام ہے جس سے ہم ایک پارہ نقل کررہے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے:

ہر انسان چالیس کے لگ بھگ پہنچ کر midlife کے (crisis) اور اس سے جنم لینی والی تبدیلیوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس عمر کو پختگی کی عمر کہہ لیجیے لیکن یہی عمر ہے جب عام آدمی بڑی بڑی غلطیاں کرتا ہے۔ اور عمل میں نا پختگی کا ثبوت دیتا ہے۔

تبدیلی کو خاموشی سے قبول نہ کرنے کی وجہ سے کئی بار انسان کا (image) سوسائٹی میں بالکل برباد ہو جاتا ہے۔

پے در پے شادیاں، معاشقے، معیارِ زندگی کو بلند کرنے کے لیے دربدر کی ٹھوکریں، ماں باپ سے ہیجانی تصادم، اولاد سے بے توازن رابطہ غرضیکہ اس عہد کی تبدیلی میں زلزلے کی سی کیفیت ہوتی ہے۔

آخری تبدیلی عموماً بڑھاپے کے ساتھ آتی ہے جب نہ اشیاء سے لگاؤ رہتا ہے، نہ انسانی رشتے ہی با معنی رہتے ہیں۔ اب اطمینانِ قلب صرف ذکرِ الٰہی سے حاصل ہوتا ہے لیکن یہ بھی نصیب کی بات ہے۔

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں