جنوبی ایشیا میں شامل ممالک کے مقامی ادیبوں نے انگریزی زبان میں جتنا بھی ادب تخلیق کیا، اسے عالمی ادب کے پس منظر میں انگریزی کا جنوب ایشیائی ادب کہا جاتا ہے، یعنی ایک طرح سے یہ ادب کی ایک شاخ ہے۔ پاکستان میں انگریزی زبان میں ادب تخلیق کرنے والے ناول نگاروں اور افسانہ نگاروں کی فہرست زیادہ طویل تو نہیں ہے، لیکن جب بھی اس پہلو پر بات کی جاتی ہے تو اس میں سب سے نمایاں اور ابتدائی نام’’بپسی سدھوا‘‘ کا ہے۔ انہوں نے 70 کی دہائی کے آخری برسوں میں ناول نگاری کی ابتدا کی اور طویل عرصے تک پاکستانی اور عالمی ادبی منظر نامے پر چھائی رہیں۔ نئے آنے والوں نے ان کی تقلید کرتے ہوئے انگریزی فکشن لکھا اور شہرت پائی۔ ان میں محمد حنیف، محسن حامد، کاملہ شمسی اور دیگر انگریزی ناول نگار شامل ہیں۔ اردو زبان میں بھی صرف بپسی سدھوا ہی وہ ادیب ہیں، جنہیں انگریزی سے اردو میں ترجمہ کیا گیا اور اسے قارئین بہت پسند کیا۔
ایک خوش گوار دن، خوب صورت یاد
بپسی سدھوا 2010ء میں کراچی لٹریچر فیسٹیول میں بطور مندوب شریک تھیں۔ اسی فیسٹیول میں راقم نے ان کا انٹرویو کیا تھا جس میں انہوں نے اپنے ناولوں اور کہانیوں کے بارے میں پہلی مرتبہ اردو میں تفصیل سے بات کی تھی۔ کراچی میں بپشی سدھوا سے راقم کی ملاقات ان آخری لمحات میں ہوئی جب وہ ایئرپورٹ روانہ ہونے کی کہانی بھی دل چسپ ہے۔ ناول نگار مختصر مدت کے لیے امریکا سے ادبی میلے میں شرکت کے لیے آئی تھیں اور اس روز صبح اپنے سیشن سے فراغت پانے کے بعد لان میں ایک نشست پر بیٹھ کر اپنی ایئرپورٹ روانگی کے لیے اپنی گاڑی کا انتظار کررہی تھیں۔
راقم نے ان کے چند ناول پڑھے تھے اور ان کے ناولوں پر بننے والی دونوں انڈین فلمیں بھی دیکھ چکا تھا جن کا تذکرہ آگے آئے گا۔ صبح صبح بپسی سدھوا سے ملاقات کے لیے ادبی میلے پہنچا تاکہ ان سے مکالمہ کر سکوں۔ دیکھا کہ وہ لان میں بیٹھی ہوئی ہیں اور یہ بہترین موقع تھا ان سے گفتگو کرنے کا۔ اپنا تعارف کرواتے ہوئے انٹرویو کی درخواست کی تو انہوں نے مجھ سے چند سوال کیے اور یہ اندازہ کرنے کے بعد کہ میں انہیں پڑھ چکا ہوں، گفتگو کی اجازت دے دی لیکن اسے گاڑی آ جانے سے مشروط بھی کردیا۔
اردو زبان میں ان کا یہ پہلا انٹرویو تھا جو میرے انٹرویوز میں سے ایک یادگار انٹرویو ہے۔ بپسی سدھوا سے یہ مکالمہ میری کتاب "باتوں کی پیالی میں ٹھنڈی چائے” میں شامل ہے۔ ان انٹرویوز کا جب انگریزی انتخاب ’’دی کنورسیشن ود لیجنڈز‘‘ شائع ہوا تو اس میں بھی بپسی سدھوا کا نہ صرف انٹرویوز شامل تھا بلکہ وہ سرورق پر منتخب شخصیات میں سے بھی ایک تھیں۔
اس کتاب کی مدیر و مترجم افرح جمال ہیں جو انگریزی کی باکمال صحافی ہیں۔ عالمی ادبیات کے تناظر میں ناول پر اپنی تحقیقی کتاب ’’ناول کا نیا جنم‘‘ میں بھی راقم نے ان کے حوالہ جات شامل کیے ہیں اور کتاب کی پشت پر منتخب ناول نگاروں میں شامل رکھا ہے۔ بعد میں بپسی سدھوا سے فیس بک کے طفیل رابطہ برقرار رہا اور اور ان کی رحلت سے دل اداسی سے بھر گیا ہے۔
خاندانی پس منظر
بپسی سدھوا 11 اگست 1938 کو غیر منقسم ہندوستان کے شہر کراچی میں پیدا ہوئیں اور 25 دسمبر 2024ء کو 86 سال کی عمر میں امریکا میں انتقال کرگئیں۔ وہ ٹیکساس کے شہر ہیوسٹن میں مقیم تھیں۔ بپسی سدھوا کا تعلق گجراتی پارسی گھرانے سے تھا۔ وہ بعد میں اپنے خاندان کے ہمراہ لاہور منتقل ہوگئی تھیں اور زندگی کا طویل عرصہ وہیں گزارا۔ بپسی سدھوا نے 1957 کو لاہور کے مشہور کنیئرڈ کالج سے گریجویشن کیا۔ 1947 میں پاکستان کا قیام عمل میں آیا تو اس وقت ان کی عمر 9 سال تھی۔ ان کی پہلی شادی ناکام رہی، البتہ دوسری شادی کے بعد خوش گوار ازدواجی زندگی کا سفر شروع کیا۔ تین بچوں کی پرورش اور گھر کی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے انہوں نے ناول نگاری کی ابتدا کی۔
عالمی شہرت اور مقبولیت کے مراحل
ناول نگار بپسی سدھوا نے انگریزی زبان میں لکھنے کو ترجیح دی، لیکن عام زندگی میں وہ اپنی مادری زبان گجراتی اور قومی زبان اردو بولنے کو ترجیح دیتی تھیں۔ 1982ء سے وہ اپنے خاندان کے ساتھ امریکا کے شہر ہیوسٹن میں رہائش پذیر تھیں۔ وہاں لکھنے پڑھنے کے ساتھ ساتھ تدریس کے پیشے سے وابستہ رہیں اور متعدد امریکی جامعات میں تدریس کے فرائض انجام دیے، جن میں ہیوسٹن یونیورسٹی، کولمبیا یونیورسٹی اور دیگر شامل ہیں۔ متعدد امریکی جامعات نے ان کے پہلے ناول ’’آئس مین کینڈی‘‘ کو نصاب کا حصّہ بنایا۔ بپسی سدھوا بطور ادیب جامعہ کراچی کے شعبۂ انگریزی کے نصاب میں بھی شامل ہیں۔
تخلیقی دنیا اور کہانیوں کے کردار
ان کی تخلیقی زندگی پر ایک نظر ڈالی جائے تو 70 کی دہائی کے آخری برسوں میں اپنے ادبی سفر کا آغاز کرنے والی بپسی سدھوا کا پہلا ناول ’’کروایٹرز‘‘ تھا۔ اس کے بعد’’برائڈ‘‘ شائع ہوا۔ پھر ’’آئس کینڈی مین‘‘ چھپا، جس کا مرکزی خیال ہندوستان کی تقسیم اور قیامِ پاکستان تھا۔ تقسیم کے دنوں کی جو بھی پرچھائیاں ان کے ذہن کے پردے پر تھیں، بپسی سدھوا نے انہیں رقم کردیا، اور ذاتی تجربات سے اپنے ناول کے کرداروں میں رنگ بھرے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس ناول میں مصنّف کی سوانح بھی جھلکتی ہے، جس کے ذریعے اس وقت کے لاہور کو محسوس کیا جاسکتا ہے۔ اس خطے کے رہنے والوں کی ذاتی زندگی پر تقسیم سے کیا اثرات مرتب ہوئے، کیا تبدیلیاں رونما ہوئیں، ان باریکیوں کو یہ ناول بیان کرتا ہے۔
اپنے طویل ادبی کیرئیر میں بپسی سدھوا ناول، مختصر کہانیاں، مضامین اور بلاگز لکھتی رہیں۔ لاہور کو یاد کرتے ہوئے بھی انہوں نے کچھ تحریریں لکھیں، جن کا مجموعہ 2006ء میں شائع ہوا۔ 2013 میں ان کی انگریزی کہانیوں کا نیا انتخاب ’’دیئر لینگونج آف لو‘‘ لاہور سے شائع ہوا اور 2012ء میں ان کے مشہور ناول ’’کروایٹرز‘‘ کا اردو ترجمہ ’’جنگل والا صاحب‘‘ کے نام سے منظر عام پر آیا۔ اس کے مترجم محمد عمر میمن ہیں۔ بپسی سدھوا کی کتابیں پاکستان کے علاوہ انڈیا، امریکا، انگلینڈ، اٹلی اور دیگر یورپی ممالک میں بھی شائع ہو چکی ہیں۔
تھیٹر اور فلم کی دنیا میں شہرت
ان کی مختلف کہانیوں کو امریکا اور یورپی ممالک میں تھیٹر پر پیش کیا گیا جب کہ دو ناولوں ’’آئس کینڈی مین‘‘ اور’’واٹر‘‘ پر دو فلمیں بھی بن چکی ہیں۔ ان کے ناول’’آئس مین کینڈی‘‘ کو بہت زیادہ پسند کیا گیا جس کا ایک ایڈیشن امریکا اور انڈیا میں ’’کریکنگ انڈیا‘‘ کے نام سے بھی شائع ہوا۔ اسی پر بھارتی نژاد کینیڈین فلم ساز دیپا مہتا نے فلم ’’ارتھ‘‘ بنائی، جب کہ ان کے ناول ’’واٹر‘‘ پر بھی وہ مساوی نام سے فلم بنا چکی ہیں۔ اس ناول اور فلم کی حیثیت اسی طرح متنازع ہے، جیسے اردو میں عصمت چغتائی کی کہانی ’’لحاف‘‘ اور پھر اس کہانی پر بننے والی فلمیں ہیں۔
بپسی سدھوا کی زندگی پر ایک دستاویزی فلم بھی تیار کی گئی، جس کو انہوں نے خود ہی لکھا تھا۔ اس دستاویزی فلم میں انگریزی زبان کی اس ادیب نے اپنی زندگی کے بارے میں گفتگو بھی کی۔ ہم اسے بپسی سدھوا کی ویڈیو بائیوگرافی بھی کہہ سکتے ہیں۔ ان کا ناول ’’آئس مین کینڈی‘‘ برطانیہ اور پاکستان میں 1988ء میں، جب کہ 1991ء میں امریکا اور 1992ء میں انڈیا میں شائع ہوا۔ اس ناول کا مرکزی خیال ایک کم عمر پارسی بچی ہے، جو اپنا ماضی یاد کر رہی ہے اور وہ دور بھی، جب ہندوستان کا بٹوارا ہو رہا تھا۔ وہ لاہور میں اپنے خاندان کے ساتھ مقیم تھی۔ تاریخ کے اس دوراہے پر، اس کے ہاتھ سے کیا چھوٹا، اس نے کیا کھویا اور پایا….یہ کہانی ان حالات اور رشتوں ناتوں کے پس منظر میں ہے، اور اس پر مصنّف کی اپنی سوانح کی چھاپ بھی موجود ہے۔
اس ناول پر بنائی گئی فلم’’ارتھ‘‘ میں معروف فن کاروں عامر خان، نندیتا داس اور راہول کھنہ نے اداکاری کی جب کہ شبانہ اعظمی بطور صدا کار اس فلم کا حصّہ ہیں۔ فلم کی موسیقی معروف بھارتی موسیقار اے آر رحمان نے دی۔ ہندوستان میں تقسیم کے موضوع پر یہ اہم فلموں میں سے ایک سمجھی جاتی ہے، لیکن جس طرح ناول کا تصوراتی دائرہ وسیع ہے، فلم اس ہدف کو حاصل کرنے میں ناکام رہی۔ بپسی سدھوا کی دیگر کتابوں کو بھی بہت شہرت ملی اور ان کے کئی بار نئے ایڈیشنز بھی شائع ہوئے۔ ان میں دی پاکستانی برائڈ، این امریکی بارات وغیرہ شامل ہیں۔
حرفِ آخر
بپسی سدھوا کے تخلیقی کام کا اردو میں ابھی تک ترجمہ نہیں ہوا۔ مترجمین کو اس طرف توجہ دینی چاہیے۔ پاکستانی فلم سازوں کو بھی چاہیے کہ ان کی کہانیوں پر فلم بنائیں اور اس طرح پاکستان میں انگریزی ادب لکھنے والی پہلی ناول نگار کی پذیرائی کی جاسکتی ہے۔ حکومتِ پاکستان نے بپسی سدھوا کو تمغائے امتیاز تو دیا، لیکن اس سے بھی بڑھ کر ان کی خدمات کا اعتراف کیا جانا چاہیے۔ بلاشبہ بپسی سدھوا اپنی ذات میں ایک ادارہ تھیں، جنہوں نے پوری دنیا میں پاکستان کا نام روشن کیا۔