لندن: اردو کے ممتاز مترجم، سینئر شاعر اور ماہر نوبیلیات باقر نقوی طویل علالت کے بعد انتقال کرگئے.
تفصیلات کے مطابق نوبیل انعام یافتگان کے خطبات کو اردو روپ دینے والے ممتاز مترجم گذشتہ روز لندن میں انتقال کر گئے. ان کی عمر 83 برس تھی.
ادبی سفر پر ایک نظر
باقر نقوی کی شعرگوئی کا سلسلہ عشروں پر محیط تھا، پھر تخلیقی سفر میں موڑ آیا، وہ ترجمے کے میدان میں آئے، پہلے مصنوعی ذہانت کے موضوع پر قلم اٹھایا، پھر نوبیل انعام یافتگان جیسا اَن چھوا موضوع منتخب کیا.
بیسویں صدی میں ادب کا نوبیل انعام حاصل کرنے والوں کے خطبات کا ترجمہ نوبیل ادبیات کے نام سے چھپا، کارنامے نے سب کو متوجہ کیا، مشاہیر نے جی کھول کر سراہا۔
اِس کام میں ایسا لطف آیا کہ امن کے شعبے میں انعام حاصل کرنے والوں کے خطبات کا بھی ترجمہ کر ڈالا، اگلی باری نوبیل حیاتیات کی تھی۔ لوگ انھیں اردو کا پہلا ماہرنوبیلیات کہنے لگے.
فکشن کی سمت بھی گئے۔ ہرٹا میولر اور گنٹر گراس کے منفرد ناولوں کو اردو روپ دے کر ناقدین سے داد سمیٹی۔ وکٹر ہیوگو کے شہرۂ آفاق ناول Les Misérables کا ترجمہ کرکے سب کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔ نوبیل انعام حاصل کرنے والے جاپانی ادیبوں کے کام کو بھی اردو روپ دیا.
حالات زندگی
باقر نقوی 1936 میں الہ آباد اترپردیش میں پیدا ہوئے۔ 55ء میں والد کے انتقال کے بعد جدوجہد کا سفر شروع ہوا۔ ہجرت کے بعد کئی معاشی مسائل کا سامنا کیا، انشورنس کے کاروبار میں آنے کے بعد کیریر کو سمت ملی. آنے والے برسوں میں کئی ممتاز انشورنس فرم میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوئے.
تذکرہ کتابوں کا
ان کے شعری مجموعے تازہ ہوا، مٹھی بھر تارے، موتی موتی رنگ، دامن (کلیات) کے زیر عنوان شایع ہوئے.
نوبیل انعام یافتگان کے خطبات کے علاوہ الفریڈ نوبیل کی حیات، خلیے کی دنیا، برقیات، مصنوعی ذہانت کے عنوان سے بھی کتابوںکو اردو روپ دیا.