اشتہار

بارش اور عمرِ رفتہ

اشتہار

حیرت انگیز

میرے محلّہ کی مسجد سے ملحق ایک چھوٹا سا تکون پارک ہے، جہاں عصر اور مغرب کے درمیان چند معمر افراد جمع ہو جاتے ہیں اور ہر موضوع پر گفتگو رہتی ہے۔ کبھی کبھی میں بھی اس گفت و شنید میں شامل ہو جاتا ہوں۔

پچھلے دنوں بارشوں کے زور کے باعث یہ نشست نہ ہو سکی۔ پھر جب بارش کچھ تھمی، تو اگلی شام پارک میں یہ ’سینئر سیٹیزن‘ جمع تھے۔ میں پہنچا تو ہر شخص کو ہشاش بشاش پایا۔ موسم کا اثر تھا، مگر عمر کے تقاضے کے تحت چند بزرگوں کو شکایات اور ناراضگی بھی تھی۔ موضوع زیر بحث تھا حالیہ بارش۔ ایک صاحب نے باران رحمت سے کچھ زحمت کا اظہار کیا، تو ایک جوان سوچ والے بزرگ بولے جناب بارشیں تو من جانب اللہ ہیں، اس میں کسی انسانی کوشش کا دخل نہیں۔ اب اگر آپ غور کریں تو لفظ بارش چار حروف سے مل کر بنا ہے۔ ب، الف، ر اور ش۔ ب سے تو بارش ہوگئی۔ الف اللہ کے لیے ہے، ر سے رحمت اور ش سے شکر گویا بارش اللہ کی کلی رحمت ہے، جس کا ہمیں شکر ادا کرنا چاہیے۔ پھر اللہ کی اس رحمت میں زحمت کا کہاں ذکر ہے۔ بارش سے نالاں دوسرے صاحب بولے جناب ہم اللہ کا شکر تو کرتے ہیں، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اس طوفانی بارشوں سے مشکلیں تو پیدا ہو رہی ہیں۔ گٹر ابلنے لگے ہیں، سڑکیں بہہ گئیں، ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر گھٹنوں گھٹنوں پانی جمع ہے۔ بجلی غائب، گرے ہوئے تاروں سے کرنٹ لگنے کے واقعات ہو رہے ہیں، آمدورفت کی مصیبت اور نجانے کیا کیا۔
جی آپ صحیح فرما رہے ہیں، مگر جناب، یہ ساری پریشانیاں تو حضرت انسان کی اپنی پیدا کردہ ہیں۔ سول انتظامیہ اپنے فرائض منصبی میں کوتاہی کرتی ہے۔ پانی کے نکاس کا معقول انتظام نہیں۔ بجلی کے کمزور تاروں کو بدلا نہیں جاتا، شاید کاغذوں پر تبدیل ہو چکا ہوتا ہے۔ سڑکیں بناتے وقت ٹھیکے دار اپنا کام دکھاتے ہیں، یہ پریشانیاں تو ہم نے اپنے ہاتھوں پیدا کی ہیں۔ اب دیکھیے اس چھوٹے سے باغیچے میں کتنی رونق ہے۔ ہر طرف سبزہ پھیلا ہوا ہے، رنگ برنگے پھول کھلے ہوئے ہیں، خوش بو پھیلی ہوئی ہے۔ یہ سب قدرت کی طرف سے بارش کا تحفہ ہی تو ہیں، ہاں ہم نے اس باغیچے کی دیکھ بھال کے لیے ایک مالی رکھا ہے۔ اہل محلّہ کی طرف سے دیے گئے چندے سے کچھ رقم مسجد سے ملحق ہونے کی وجہ سے اس پر بھی خرچ کی جاتی ہے۔ اگر سول انتظامیہ کا ہر شعبہ اس کا ہر کارندہ اپنے فرائض خوش اسلوبی اور ایمان داری سے سرانجام دے، تو ہمارا پورا شہر اس باغیچے کی مانند چمن زار ہو جائے۔

خیر صاحبان فی الوقت چھوڑیے، اس ناراضگی اور شکایات کو کہیں اللہ ہم سے ناراض نہ ہوجائے کہ کتنے ناشکرے ہیں یہ لوگ کہ اتنے خوش گوار قدرتی ماحول میں بیٹھے ہیں اور بجائے اس کے کہ موسم سے لطف اندوز ہوں، سبحان اللہ ماشاء اللہ کہیں، لے کر بیٹھ گئے گلے شکوے۔ ایک مرنجان مرنج بزرگ کہنے لگے۔

- Advertisement -

دوستو! آئیے ہم بارش سے متعلق اپنی اپنی خوش گوار یادوں کو تازہ کریں۔ پہلے میری سنیے۔ پھر ٹھنڈی سانس بھر کر چہکے ہائے کیا زمانہ تھا وہ بھی، کیا باتیں تھیں، برکھا رُت آئی، ہر طرف بدلی چھائی، بجلی کوندی، بادل گرجے اور لگ گئی پانی کی جھڑی، ہم اپنے کھلے صحن اور میدان میں نکل آئے۔ گیلی مٹی سے سوندھی خوش بو پھیلنے لگی۔ جانے کہاں سے خوب صورت ننھی منی مخملی گہری سرخ چمک دار ’بیر بہوٹیاں‘ زمین پر رینگنے لگتی تھیں۔ ہم انھیں پکڑ کر شفاف بلوریں شیشوں میں بند کرلیتے تھے۔ گھنے آموں اور نیم کے پیڑوں میں جھولے پڑ جاتے تھے۔ لڑکیاں بالیاں جھولے کے پینگ کے ساتھ مدھر ساون گیتوں کی پینگ بڑھاتی تھیں۔ گھروں میں چولھے پر کڑھائیاں چڑھ جاتی تھیں۔ گرم گرم پکوڑے، سموسے تلے جاتے تھے۔ آلو بھرے پراٹھے، اچار، چٹنی سے کھائے جاتے تھے۔ اندرسے کی گولیاں اور گرم میٹھی جلبیاں ہوتی تھیں۔ پیڑوں پر کوئل کوکتی تھی۔ ہائے کہاں گئے وہ علاقے۔ وہ میرا بچپن اور وہ بارشیں، جو دل و جان میں تازگی کی ایک نئی روح پھونک دیتی تھی۔ کیا بوڑھے، کیا جوان، کیا بچے سب ایک ساتھ بارش کے مزے لیتے تھے۔

وہ صاحب اپنی یادوں کی دنیا میں کھو گئے تھے۔ کہنے لگے، دوستو یہ تو بچپن اور لڑکپن کی کچھ باتیں، یادیں ہیں۔ جوانی میں برسات کے موسم کا اپنا الگ مزہ تھا۔ دل تھام کر بیٹھیے اور سینے۔ مگر اس سے پہلے کہ وہ اپنی عمرِ رفتہ کو آواز دیتے مؤذن نے اللہ اکبر کی آواز بلند کی اور ہم سب نماز مغرب کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔

(از قلم:‌ ڈاکٹر فرید اللہ صدیقی)

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں